شکوراں نے واپس جاکرموتیا کا ویسا ہی نقشہ کھینچا تھا جیسا وہ دیکھ کے آئی تھی۔ وہ نہ جھوٹ بول سکی تھی نہ اُس کی کوئی خامی بیان کرپائی تھی۔ تاجور نے ماتھے پر بل لیتے مراد کو جھولے میں جھلاتے ہوئے اُس کی بات سنی تھی اور پھر کوئی سوال نہیں کیا تھا۔ اُس کے بیٹے مراد کا گاؤں میں کہیں چرچا نہیں ہوا تھا روپ رنگ میں… وہ صرف چوہدری شجاع کے بیٹے کے طور پر ہی یاد تھا سب کو… لیکن جو قصیدے موتیا کے سننے میں آرہے تھے۔ وہ تاجور کوہضم نہیں ہوپائے تھے۔
اللہ وسائی چھلہ نہاکر حویلی آئی تھی وہ پہلی بار تاجور کو مراد کی مبارکباد دینے آئی تھی اور تاجور نہ چاہنے کے باوجود اُسے اندر بلانے پر مجبور ہوگئی تھی۔
”یہ کیا لائی ہو تھتھی ؟” تاجور نے جان بوجھ کر اُسے اُسی نام سے پکار ا اللہ وسائی نے جیسے کان بند کرلئے تھے۔ اُس کے اندر اب غصہ رہا ہی نہیں تھا۔
”یہ گڑ ہے۔ موتیا چھلّے کی ہوئی ہے تو بانٹ رہے ہیں پورے گاؤں میں۔” تاجور نے شکوراں کو اشارہ کیا تھا اور اُس نے وہ گڑپکڑ لیاتھا۔
”سنا ہے تمہاری بیٹی بڑی روپ والی ہے۔” تاجور نے کچھ عجیب سے انداز میں اللہ وسائی سے کہا تھا۔ اللہ وسائی کا چہرہ چمکا تھا۔
”شکر ہے رنگ روپ میں تجھ پر اور گامو پر نہیں چلی گئی۔” تاجور نے عجیب کاٹ دار مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔
”ہاں جی رنگ روپ تو آپ کالے آئی ہے چوہدرائن جی… میں جب بھی آپ کو دیکھتی تھی تو دُعا کرتی تھی اللہ اُسے آپ جیسا رنگ روپ اور نصیب دے میرے جیسا نہیں… اللہ نے میری سن لی۔”
اللہ وسائی کے جملوں نے تاجور کو عجیب طرح سے چٹخایا تھا۔
”نہ تمہاری بیٹی کا رنگ روپ میرے جیسا ہے اور نہ ہی نصیب میرے جیسا ہونا ہے تھتھی ۔ میں پیروں کی دھی ہوں چوہدریوں کی بہو… وہ کمی کمینوں اور ماشکیوں کی دانے ڈال دے اسے شکوراں ۔ اس کے بھی اور ا س کی بیٹی کے لئے بھی۔”
تاجور کہہ کر اُٹھ گئی تھی پر جاتے جاتے اللہ وسائی کے منہ پر جیسے جوتا مار گئی تھی۔ شکوراں کو جیسے پہلی بار تاجور کے جملے اچھے نہیں لگے تھے۔
”چل تو دل پہ نہ لینا… یہ پیر اور سیّد غصے کے بڑے ڈاہڈے ہوتے ہیں پر دل کے بہت اچھے ہوتے ہیں۔ تو لے جا یہ دانے… میں آؤں گی بتول کو لے کر کسی دن۔” شکوراں نے تاجور کے جانے کے بعد بڑی مدھم آواز میں اُس سے کہا تھا اور پھر اُسے دانوں کا ایک بھرا ہوا تھیلا تھما دیا۔ اللہ وسائی ایک لفظ بھی کہے بغیر گئی تھی۔ شکور اں اندر کمرے میں آئی۔
”بی بی صاحبہ یہ گڑ کا کیا کرنا ہے؟”
اُس نے اللہ وسائی کے لائے ہوئے گڑ کا پوچھا۔
” باہر پھینک دے پتہ نہیں کون کون سے ٹونے کرکے لے آئی ہیں عورتیں میٹھے پر۔” تاجور نے مراد کو جھلاتے ہوئے کہا تھا۔ اُس کے کانوں میں ابھی بھی اللہ وسائی کے جملے گونج رہے تھے اور وہ یوں جھنجلا رہی تھی جیسے اللہ وسائی اُس کا رنگ روپ اور نصیب چوری کرکے لے کے گئی تھی اپنی بیٹی کے لئے۔
٭…٭…٭