سال کی موتیا صحن میں چلنا سیکھ رہی تھی اور گامو اور اللہ وسائی اُسے بیٹھے دیکھتے ہوئے جیسے اُس پر قربان جارہے تھے۔
”دیکھ کیسے چلتی ہے میری موتیا اللہ وسائی جیسے ہوا میں چل رہی ہو۔” گامو نے کہا تھا اور پھر اپنی بات پر خود ہی ہنس پڑا۔
”تونے بال دیکھے ہیں اس کے گامو… ریشم ہے ریشم… نہ تیرے بال ایسے ہیں نہ میرے… یہ کہاں سے لے آئی یہ بال۔” اللہ وسائی منجی کو پکڑ کر اُس کے پاس آنے کی کوشش کرتی موتیا کو دیکھ کر کہا تھا وہ اب اُس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیر رہی تھی۔
”تو رنگ روپ دیکھ ، نین نقش دیکھ… میری تو سات پشتوں میں کوئی ایسا نہیں ہے اللہ وسائی۔” گامو ہر روز کی طرح آج بھی بیٹی کو بیٹھے دیکھتا اُس کے قصیدے پڑھ رہا تھا۔
”نہ کیا کر ایسے گامو… نہ گنا کر میری موتیا کے نین نقش… نظر لگتی ہے۔”
اللہ وسائی نے یک دم موتیا کو اُٹھا کر گود میں لیٹے ہوئے اوڑھنی ڈال کر جیسے اُسے گامو کی نظر سے بھی چھپانے کی کوشش کی تھی۔
”ٹھیک کہہ رہی ہے تو… تو روک دیا کر مجھے۔”
گامو نے فوراً ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔ وہ اب اوڑھنی سے نکلنے کے لئے مچلتی ہوئی موتیا کو بھی نہیں دیکھ رہا تھا۔
”میں کیا کروں مجھے خود بھی خیال نہیں رہتا۔” اللہ وسائی نے ہنستے ہوئے موتیا کو ایک بار پھر آزاد کرتے ہوئے کہا۔
”تجھے پتہ ہے گامو میرا دل کیا کرتا ہے؟” اس نے چارپائی سے اُترتی موتیا کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”کیا؟” گامو نے جواباً پوچھا۔
”میں موتیا کو پڑھاؤں لکھاؤں ۔”گامو نے حیرانی سے بیوی کو دیکھا۔
”پڑھاؤں لکھاؤں؟”
”ہاں جیسے تاجور بی بی کو پڑھایا ہے پیر صاحب نے ۔ میں سوچتی ہوں اُسے وہ ڈاکٹرنی نہ بنادیں جو کبھی کبھی گاؤں کی ڈسپنسری میں آتی ہے۔ ” اللہ وسائی کے خوابوں پر کوئی قید ہی نہیں تھی۔
”ہاں ڈاکٹرنی بن جائے تو اچھا ہے پر تیرے میرے پاس اتنے پیسے کہاں ہیں؟”
گامو نے سرکھجاتے ہوئے بیوی کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔
”تو جمع کرلیتے ہیں گا… ابھی تو بڑا وقت پڑا ہے اس کے بڑے ہونے میں تب تک جوڑلیں گے اتنا پیسہ۔” اللہ وسائی نے فوراً سے بیشتر کیا تھا۔
”ہاں پر پتہ نہیں برادری والے کیا کہتے ہیں… گاؤں میں رواج کہاں ہے لڑکیوں کو بڑھانے کا۔” گامو کو خیال آیا تھا۔
”رواج تو پڑتے ہیں گامو… ہم ڈالیں گے رواج… موتیا پڑھ کے ڈاکٹر بن گئی تو گاؤں کا ہی فائدہ ہے۔” گامو اُس کی بات پر سرہلانے لگا تھا۔ ”ٹھیک کہتی ہے تو۔”
”میں سوچتی ہوں بھٹی لگا لوں… چار پیسے وہاں سے بھی آجائیں گے۔” اللہ وسائی اب اُن کاموں کے بارے میں سوچنا شروع ہوئی تھی جو کرکے وہ اپنی کمائی بڑھا سکتی تھی۔
”اتنے سال تجھے بھٹی لگانے نہیں دی… اب لگانے دوں ۔” گامو ملول ہوا۔
”تو کیا ہوا؟ … اولاد کے لئے تو بڑابڑا کچھ کرتا ہے انسان کا… یہ تو پھر بھٹی ہے۔” اللہ وسائی نے ہنس کر کہا تھا۔ اُس کی زبان میں تتلاہٹ تھی سوچ میں کوئی تتلاہٹ نہیں تھی۔ وہ موتیا کو زمین کانیں آسمان پر دیکھنا چاہتی تھی۔
٭…٭…٭