”ہے نا بابا جان خوبصورت میرا مراد۔” ننھا مراد پیر ابراہیم کے بستر میں سورہا تھا اور پیر ابراہیم اُس پر آیات پڑھ پڑھ کر پھونک رہے تھے جب تاجور نے اُن سے کہا تھا۔ وہ رہنے کے لئے اپنے باپ کے گھر آئی تھی۔
”ماشاء اللہ… اللہ نظر بد سے ہمیشہ محفوظ رکھے۔” پیر ابراہیم نے مسکراتے ہوئے تاجور کو دیکھ کر کہا تھا۔
”بس آپ دعا کریں میرے بھی سات بیٹے ہوں جیسے میرے سات بھائی ہیں۔” تاجور نے باپ سے اصرار کیا تھا۔
”اللہ عطا کرنے والا ہے۔ اُس کے خزانے میں کہا کمی ہے۔” پیر ابراہیم نے جواباً کہاتھا۔
”بابا جان ویسے واقعی نصیبوں والی ہوں میں… پہلے ہی سال اللہ نے بیٹا دے دیا۔ اور اس سال فصل بھی چار گنا ہوئی ہے۔ خوش بختی لائی ہوں میں حویلی کے لئے۔”
پیر ابراہیم نے بیٹی کا پر تفاخر انداز دیکھا اور بڑی سنجیدگی سے کہنے لگے۔
”بار بار اپنی خوش قسمتی کو نہیں دہراتے تاجور… سارے انسان قسمت اور نصیب لے کر آتے ہیں۔ بس ہمارے اعمال ہوتے ہیں جو ہمارے آگے آتے ہیں یا پھر آزمائشیں… اور اللہ تعالیٰ آزمائشوں سے سب کو محفوظ رکھے۔” وہ کہتے ہوئے تسبیح کرنے لگے تھے۔ تاجور کو اُن کی باتیں اچھی نہیں لگی تھیں۔
”بابا جان میں وہ کہہ رہی ہوں جو جھوک جیون میں سب کی زبان پر ہے۔ جب سے میں وہاں گئی ہوں ۔ جھوک جیون کے کھیت لہلہلانے لگے ہیں۔ بارشیں ہونے لگی ہیں۔ ورنہ آپ کو تو پتہ ہے۔ ابا جی کیسے ہر سال پریشان آیا کرتے تھے بارش کی دُعا کرواتے۔ ” تاجور نے جیسے باپ کو یاد دلانے کی کوشش کی تھی۔
”اللہ نے برکت ڈال دی۔ رحمت بھیج دی جھوک جیون میں… وہ صرف تمہاری وجہ سے تھوڑی ہوگا۔ پتہ نہیں کتنے نیک لوگ ہوں گے وہاں دُعائیں اور عبادتیں کرنے والے ۔ پتہ نہیں کس کی دُعا لگی ہوگی کس کی قبول ہوئی ہوگی ۔ تاجور اس بار خفا ہوگئی تھی۔
”ایک تو ابا جان آپ ہمیشہ مجھے ہی ٹوکتے ہیں۔ ” پیر ابراہیم ہنس پڑے اور انہوں نے کہا۔
”اچھا یہ ساری باتیں چھوڑو یحییٰ کا رشتہ طے کردیا ہے میں نے۔” انہوں نے بات بدلی تھی اور تاجور کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔ وہ اُس کا بڑا بھائی تھا۔
”بھائی جان کا رشتہ؟ اور مجھ سے پوچھا تک نہیں… میں نے لڑکی دیکھنے جانا تھا… میں پسند کرتی پھر ہاں کرتے آپ۔” پیر ابراہیم اُس کی بات پر سنجیدہ ہوگئے تھے۔
”یہ رواج نہیں ڈالنا میں نے اپنے خاندان میں کہ لڑکیاں دیکھ دیکھ کر پسند یا نا پسند کریں… خاندان اچھا ہے بس تو اچھی ہے گی ہمارے گھر آکر بھی۔” پیر ابراہیم نے جیسے بات ختم کی تھی۔
”بابا جان رنگ روپ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ بھائی جان اتنے خوبصورت اونچے لمبے ہیں… اور آپ بغیر دیکھے کوئی بھی لڑکی لے آئیں گے اُن کے لئے۔ ” تاجور کو باپ کی بات بالکل پسند نہیں آئی تھی اور پیر ابراہیم اُس کی بات پر یوں ہنسے تھے جیسے وہ اُنہیں بچوں کی باتیں لگی تھیں۔
”تاجور تو نے کہاں سے سیکھ لی ہیں یہ ساری باتیں؟… ماں تیری ولی تھی اور باپ تیرا لوگوں کی خدمت کرنے والا اللہ کا بندہ… تیرا نخرہ کس پر چلا گیا ہے؟” انہوں نے ہنستے ہوئے تاجور سے کہا تھا۔
تاجور نے جیسے مزید بُرا منایا تھا۔
”ٹھیک ہے بابا جان آپ کریں جہاں بھی کررہے ہیں بھائی جان کا رشتہ… تاجور کو نہ پوچھیں… پر جب تاجور اپنے بیٹے کا رشتہ کرے گی نا تو چھان چھٹک کر دیکھ بھال کر کرے گی۔ ایسے ہی نیکیاں اور نسب دیکھ کر ہنس کر دے گی۔” اُس نے جیسے باپ کو سنایا تھا۔
”کیا پتہ مراد کے دل کو کیا بھا جائے پھر تو اُس کے دل کا کیا کرے گی؟” پیر ابراہیم نے عجیب سے انداز میں کہتے ہوئے پہلے مراد کو اور پھرتاجور کو ہنس کر دیکھا۔
”ماں کے دل سے بڑھ کر کوئی دل نہیں ہوگا اُس کے لئے بابا جان۔” تاجور نے جیسے بات ہی ختم کردی تھی۔ مراد اب ہلتے جلتے ہوئے جمائیاں لینے لگا تھا ۔ پیر ابراہیم بیٹی کو دیکھتے رہے۔
٭…٭…٭