Blog

Dana-Pani-Ep-1

وہ گاؤں کے سکول میں موتیا کا پہلا دن تھا اور گامو اور اللہ وسائی اُسے خود چھوڑنے آئے تھے۔ وہ اُس سرکاری سکول میں لڑکوں کے ساتھ جانے والی پہلی لڑکی تھی اور سکول کے پہلے ہی دن اُس کا سامنا مراد سے ہوا تھا۔ جو چوہدری شجاع اور اپنے ملازموں کے ساتھ سکول آیا تھا ۔ اُس کا بیگ ایک ملازم نے پکڑ ا ہوا تھا۔ اُس کے پانی کی بوتل دوسرے نے اور تیسرے نے اُس کی کرسی اور میز جوتاجور نے شہر سے منگوائی تھی کیونکہ گاؤں کے سکول میں ٹاٹ تھے۔ تاجور اور شجاع نہ چاہنے کے باوجود مراد کو گاؤں کے سکول بھیجنے پر مجبور تھے وہاں وہ ایک ہی سکول تھا اور آس پاس کے دیہات میں جو سکول تھے اُن کا حال بھی ویسا ہی تھا۔ وہ اُسے شہر کے کسی بورڈنگ سکول داخل کروانے کا جگرا نہیں رکھتے تھے۔ کیونکہ مراد کے بعد تاجور کے ہاں ابھی تک کوئی اور اولاد نہیں ہوئی تھی۔
”ارے گامو تو کہاں جارہا ہے؟” شجاع نے گامو اور اللہ وسائی کو موتیا کے ساتھ سکول جاتے دیکھ کر جیسے کچھ حیران ہوکر پوچھا تھا۔



”چوہدری صاحب موتیا کو بھی سکول داخل کروادیا ہے۔ پڑھائیں گے اسے۔” گامو نے کہا تھا چوہدری شجاع نے مسکراتے ہوئے بے حد حیرانی سے موتیا کو دیکھا اور جیسے دل ہی دل میں چشم بدور کہا۔ وہ بچی گامو اور اللہ وسائی کے پاس کھڑی کسی ہیرے کی طرح چمک رہی تھی۔
”چلو یہ تو بڑا اچھا ہے۔ گاؤں میں بھی لڑکیوں کو پڑھانے کا رواج آئے۔” چوہدری شجاع نے کہا تھا اور مراد کو اُٹھائے ہوئے ملازم کے ساتھ اندر کی طرف بڑھ گیا۔
پر مراد کی آنکھیں ملازم کی گود میں بھی بس موتیا پر ٹک گئی تھیں جو اُس کے عقب میں اپنے ماں باپ کے ساتھ آرہی تھی۔
بچپن معصوم ہوتا ہے اسی لئے مومن ہوتا ہے اور حسن پرست بھی۔ ننھا مراد اُس لمحے میں موتیا کے ساتھ دوستی کرنے کے لئے کچھ بھی کرسکتا تھا۔ اُسے وہ ایسی ہی پیاری لگ گئی تھی۔
”میں نے اُس کے ساتھ بیٹھنا ہے۔ ”
اُس نے موتیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اندر کلاس میں ضد کی تھی جو ٹاٹ کے ایک سرے پر سب لڑکوں سے الگ بیٹھی ہوئی تھی اور مراد کی کُرسی اور میز ماسٹر کی کُرسی اور میز کے ساتھ رکھے ہوئے تھے۔ چوہدری شجاع نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر وہ نہیںمانا تھا اُس کو موتیا کے ساتھ ہی بیٹھنا تھا اور وہ بالا آخر موتیا کے پاس آکر ٹاٹ پر بیٹھ گیا تھا۔ جتنا چہرہ مراد کا کِھلا تھا اُس سے زیادہ چمک موتیا کے چہرے پر آئی تھی۔
”دوستی؟
ایک انگلی کو کنڈے کی طرح کرتے ہوئے موتیا کی طرف بڑھاتے ہوئے مراد نے اُس سے پوچھا تھا۔ موتیا نے اپنی انگلی کا کنڈا اُس کی اُنگلی میں ڈالتے ہوئے سرہلا دیا تھا۔ مراد نے اپنی بوتل کو موتیا کے منہ کے ساتھ لگا دیا تھا۔ موتیا نے جھجکتے ہوئے پہلی بار حویلی کا وہ پانی پیا تھا جو اُس کا باپ گامو ہی وہاں پہنچا کر آتا تھا۔
وہاں کھڑے گامو، اللہ وسائی ، چوہدری شجاع اور اُس کے ملازم ہونٹوں پر مسکراہٹیں لئے ہوئے یہ سب دیکھ رہے تھے۔ وہ بچوں کی دُنیا تھی اور اُس میں بس باغ ہی باغ ہوتے ہیں۔
ماسٹر صاحب نے پڑھانا شروع کیا تھا۔
پڑھو الف سے اللہ
جو سب کا ہے
الف سے اللہ
جو سب کا ہے
موتیا اور مراد بھی ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے پہلا سبق پڑھ رہے تھے۔ موتیا مراد کو پہلے ہی دن زمین پر لے آئی تھی۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!