Blog

Dana-Pani-Ep-1



گامو رستے میں آنے والی ہر مخلوق کو پانی پلانے کھڑا ہوجاتا تھا ۔ اور کئی بار گاؤں کی عورتوں کی جھڑکیاں سنتا جن کے گھر وہ اس لئے دیر سے پہنچتا تھا کیونکہ اُس کی مشک بار بار بھرکے ختم ہوجاتی تھی۔ پر گامو کے ماتھے پر کبھی بل آیا نہ اُس کے ہونٹوں سے کبھی ہنسی چھوٹی۔ چھوٹے قد کا دُبلا پتلا معمولی صورت کا سانولا گامو پانی ڈھوڈھو کے اُس گاؤں کے لوگوں کا رازداں بن گیا تھا جس سے پانی بھرواتے پیتے کوئی بھی کچھ بھی پوچھ لیتا… کچھ بھی کہہ دیتا… دل کے اندر کے رازوں سے لے کر ذہن کے پردوں پر بننے والی یادوں تک… گامو ماشکی سے کسی کا کوئی پردہ نہیں تھا… دل سے کسی کا کیا پردہ۔ وہ جھوک جیون کی رگوں میں پانی خون کی طرح پہنچاتا جھوک جیون کا دل ہی تو تھا۔
کنویں سے مشک اُٹھاتا وہ سب سے پہلے گاؤں کے قبرستان میں قبریں تر کرنے جاتا تھا۔ یہ بھی اُس نے اپنے باپ سے سیکھا تھا۔ اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں کی قبروں پر پانی چھڑکتے چھڑکتے گامو ساری ہی قبروں کو تر کرنے لگتا تھا کیونکہ گیلی قبروں کے درمیان سوکھی قبریں یوں گامو کا منہ چڑاتی تھیں جیسے اُس نے سب کو پانی پلادیا ہو اور کسی کو چھوڑ دیا ہو اور گامو کہاں کسی کو چھوڑنے والا تھا۔ وہ جن کے خاندان والوں کی قبریں تھیں وہ آئے نہ آئے گامو ضرور آتا۔ قبریں ٹھنڈی کرتا پورے قبرستان میں پانی چھڑک کر چلا جاتا اور جہاں جہاں کسی نے قبر پر پرندوں کے لئے دانہ پانی کے پیالے رکھے ہوئے وہاں بھی پانی بھر جاتا۔
وہ قبرستان کے بعد سیدھا گاؤں کی مسجد جاتا وہاں گھڑے بھرتا اور خوشی سے نہال ہوتا رہتا یوں جیسے وہ رب سوہنے کے گھر میں پانی دینے آیا ہوتا۔ گاؤں کی اُس کچی پکی مسجد میں کوئی نمازی آتا نہ آتا گامو پانی ڈالنے ضرور آتا۔ قبرستان میں لگے موتیا کے پودوں سے موتیے کے پھول توڑ کر وہ مسجد کے پانی کے گھروں کے پاس چھوڑ جاتا۔ کسی اور نے مسجد میں جھاڑو نہ لگایا ہوتا تو وہ جھاڑو لگانے کھڑا ہوجاتا۔
اور مسجد کے بعد وہ سب سے پہلے گاؤں کے چوہدریوں کی حویلی جاتا تھا۔
بغداد شہر دی کی اے نشانی اچیاں لمیاں چیراں ہُو
تن من میر ا پرزے پرزے جیویں درزی دیاں لیراں ہُو
(بغداد شہر کی کیا نشانی ہے؟ فقر کی راہ میں لگے گہرے زخم
اس راہ میں میرا تن من یوں لیر و لیر ہوچکا ہے جیسے درزی کے کٹے ہوئے کپڑوں کے ٹکڑے)
اُس حویلی سے گامو کو دانے آتے تھے وہ دانے جس سے اُس کے گھر کا چولہا جلتا تھا اور اُس کے پیٹ کا ایندھن بھی۔ وہ احسان مندی اور تشکر کے لئے وہاں پانی ہی لاسکتا تھا۔ اس کے باوجود کہ حویلی میں ہینڈپمپ بھی لگا تھا اور وہاں پچھلے احاطے میں اپنا کنواں بھی تھا۔ اُسے کبھی کسی نے حویلی پانی لانے کے لئے نہیں کہا تھا۔ پر گامو پھر بھی وہاں جاتا اور حویلی میں وہیں سے پانی لے لے کر اندر باہر چھڑکتا پھرتا اور حق باہو کا کلام پڑھتا جاتا۔ کئی بار چوہدری کرامت اُسے بٹھا کر وہ کلام سنانے کا کہہ دیتے اور جس دن وہ چوہدری کرامت کو کلام سناتا اُس دن صبح سویرے ہی جیسے اُس کا دامن دانوں سے بھرجاتا۔ وہ گامو کو کچھ نہ کچھ دے کر ہی رخصت کرتے۔ گاؤں کے ماشکی کے لئے کبھی حویلی کا دروازہ بند نہیں ہوا تھا یہ جیسے اُس کے کام اور عہدے کی تکریم تھی۔



لیراں دی گل کفنی پاکے، دل ساں سنگ فقیراں ہُو
منگ بغداد دے ٹکڑے باہو، کرساں میراں میراں ہُو
(دل و روح کے ان ٹکڑوں کا کفن پہن کر میں بغداد کے فقیروں میں مل جاؤں گا
بغداد شہر کی گلیوں میں بھیک مانگتا پھروں گا اور محبوب کا نام بار بار پکاروں گا)
اندر کسی کمرے میں مردان خانے میں جانے کے لئے تیار ہوتے ہوئے چوہدری کرامت کے سینے پر گامو کے کلام نے جیسے سینے پر ہاتھ ڈالا تھا۔ چوہدرائن کو چار مہینے ہوئے تھے فوت ہوئے اور جب سے وہ گئی تھی چوہدری کرامت کا اندر باہر ہی بدل کے رہ گیا تھا۔ گامو کی آواز اُس کو اندر باہر سے یوں ”پھرول” رہی تھی جیسے دانوں کو صاف کرنے کے لئے اُن میں ہاتھ پھیرتی کسی کی انگلیاں۔
چوہدری کرامت نے شیشے کے سامنے کھڑے اپنی آنکھوں کو رگڑ کر خشک کیا تھا اور پھر کلّا سر پر جماتے ہوئے اُس نے اپنے ملازم کو آواز دی تھی:
”گامو کو چھاچھ کی گھڑولی دینا آج دانوں کے ساتھ۔” اس کا ملازم تابعداری سے باہر لپکا۔
چوہدری کرامت کی حویلی میں کئی دن سے سفیدی ہورہی تھی۔ اُس کے اکلوتے بیٹے کی شادی کی تیاری تھی جو چوہدرائن کی زندگی میں شروع ہوئی تھی اور اب اُس کے جانے کے کئی مہینے بعد دوبارہ شروع ہوئی تھی۔
ایہہ تن میرا چشمہ ہووے، مرشد دیکھ نہ رجاں ہُو
مرشد دا دیدار ہے باہو، لکھ کر وڑاں حجاں ہُو
(میرا پورا جسم آنکھ بن جائے اور مرشد کو دیکھ میرا جی نہ بھرے
مرشد کا دیدار تو لاکھوں کروڑوں حج کے برابر ہے)
گامو کی بیوی اللہ وسائی نے برتن میں پڑے دانوں کی آخری مٹھی کو پتھر کی اُس چکی کے سوراخ میں ڈالا تھا جسے چلاتے ہوئے وہ اس وقت گھر کے صحن میں بیٹھی آٹا پیس رہی تھی۔ بس وہ آٹا آج اتنا ہی ہوتا کہ پیس کر دو وقت کی روٹی مل جاتی پھر کل کیا ہوتا وہ کبھی اللہ وسائی نے سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ صبح اُٹھ کر ایک مٹھی بھر کر دانے اسی برتن سے گھر کے صحن میں آنے والے پرندوں کے لئے نکال دیتی اور کچھ مٹھی دانے آتا پیسنے کے لئے۔ وہ برتن چھوٹا تھا اور اُس میں دانے چوہدریوں کے گھر سے ہی آتے تھے ہمیشہ ۔ فصل کٹنے کے وقت زیادہ آتے اور کئی مہینے چلتے اور جب وہ ختم ہونے لگتے تب بھی کسی نہ کسی خدمت کے عوض چوہدریوں کے گھر سے کچھ نہ کچھ آتا ہی رہتا۔ اللہ وسائی ہر بار آخری مٹھی نکالتے ہوئے سوچتی کہ اتنی بڑی دنیا کے لکھ کروڑوں لوگوں میں رب سوہنے کو گامو اور اُس کی بیوی کا وہ خالی ہوتا برتن بھی نظر آتا اور یاد ہوتا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!