Blog

Dana-Pani-Ep-1

” واہ رب سوہنے تیری شاناں!” وہ سوچتی اور ہر بار اُس برتن کے دوبارہ بھرنے پر رب سوہنے پرقربان جاتی… اُ س برتن کا خالی ہوکر دوبارہ بھر جانا اللہ وسائی کے لئے معجزہ تھا اُسے رب سوہنے کی ذات سے کوئی اور معجزہ نہیں چاہیے تھا۔
پتھر کے دوپاٹوں والی چکی کا ڈنڈا اللہ وسائی کے ہاتھوں میں گھومتا جارہا تھا اور آٹا پیس پیس کر دو پاٹوں سے نکل نکل کر نیچے پھیلائے کپڑے پر گرتا جارہا تھا۔
اللہ وسائی کا سانس پھولا تھا۔ وہ جیسے سانس لینے کے لئے رُکی۔ دوپٹے کے پلوسے اُس نے اپنے ماتھے کا پسینہ صاف کیا۔ مئی جون میں چکی چلاتے وہ سر سے پیروں تک اسی طرح پیسنے میں نچڑ جاتی تھی۔



دوبارہ چکی چلانا شروع کرنے سے پہلے اُس نے جیسے کان لگا کر فضا میں گامو کی آواز کی کسی بازگشت کو کھوجنے کی کوشش کی تھی۔ اُس کی آواز پورے گاؤں میں گونجتے گونجتے اُس کے اپنے گھر میں اللہ وسائی کے کانوں تک بھی ضرور پہنچتی تھی اور اُس کی آواز کی اونچ نیچ سے اللہ وسائی جیسے حساب لگا لیتی تھی کہ وہ اس وقت گاؤں کی کس گلی میں تھا۔ اور کب تک گھر پہنچ جائے گا۔
وہ فجر کے وقت گامو کے گھر سے نکلتے ہوئے اُٹھتی تھی اور پھر گھر میں گامو کی قریب دور ہوتی آواز کی گونج سے وہ گھر کے کام نپٹاتی ۔ اُس کی آواز جیسے اللہ وسائی کے لئے گھڑی کا کام دیتی تھی۔ وہ چھوٹا ساگاؤں تھا ۔ بڑا ہوتا تب بھی اللہ وسائی کو یقین تھا گامو کی آواز پھر بھی اتنی بلند ہوتی کہ اُس کے گھر تک ضرور پہنچتی رہتی۔
گامو گلیاں گلیاں پھرتا للہ وسائی گھر کے کام نپٹا اُس کے آنے سے پہلے اُس کے لئے آٹا پیس کر ناشتہ تیار کئے بیٹھی ہوتی۔ گندم کی روٹی اور اچار ، کبھی اچار اور رات کا بچا ہوا سالن اور کبھی خالی روٹی۔ گاموں کی کمائی پانی کی کمائی تھی اور پانی کی کمائی ہوائی رزق۔
پر اللہ وسائی کو کبھی فرق نہیں پڑا تھا کہ گامو کیا کماتا تھا اور کیا لاتا تھا اُس کے لئے بس گامو کافی تھا۔ باقی چیزیں ہوتیں نہ ہوتیں آتیں نہ آتیں۔ جتنا سیدھا گامو تھا ویسی ہی اللہ میاں کی گائے اللہ وسائی تھی۔
گاؤں کے ہر گھر میں ہر کام کے لئے آگے آگے۔ خوشی غمی میں بغیر بلائے جانے والی۔ کسی کی بیٹی کی شادی ہوتی تو اللہ وسائی باورچی خانہ اور برتن سنبھال لیتی۔ داج سینے پرونے میں تو وہ پہلے ہی آگے ہوتی تھی پر جب تک شادی چلتی رہتی اللہ وسائی راکھ سے برتن مانجھ مانجھ کر اپنے ہاتھ زخموں زخمی کرلیتی پھر بھی اُس کو درد نہیں ہوتا تھا۔ لڑکی رخصت ہوتی اللہ وسائی گاؤں کی آخری سڑک تک گھروالوں کے ساتھ روتی دھوتی جاتی۔ لڑکی کی ماں بہنوں کو تسلی دیتے دیتے خود رو رو کر ہلکان ہوجاتی اور اپنے دوپٹے کے پلوسے ناک اور آنکھیں رگڑ رگڑ کر اپنا حشر کرلیتی اور اگر کہیں لڑکے کی شادی ہوتی تو اللہ وسائی ایسی ڈھولک بجاتی کہ پورا گاؤں ناچ اُٹھتا۔ اُس کے ہاتھ سرخ ہوجاتے، بازو اور کندھے دُکھنے لگتے بیٹھے بیٹھے ٹانگوں میں کھلیاں پڑنے لگتیں مگر مجال تھی کہ اللہ وسائی محفل چھوڑ کر جاتی۔ اُسے سارے سہرے ، سارے ٹپّے یاد تھے۔ اپنی تتلائی زبان سے وہ سہرا شروع کرتی اور پورے گاؤں کی عورتیں اُس کی ہم آواز ہوکر گانے لگتیں اور اُن کے گانے اور آوازوں میں اللہ وسائی کی تتلائی آواز چھپ جاتی اور اللہ وسائی پھر بھی ڈھولک پیٹتے سہرا گاتی جاتی۔ ڈھولک کی طناپیں کستی بار بار نئے سرے سے نئی لے پر ڈھولک پیٹتی وہ گامو ماشکی کی بیوی نہ مشہور ہوتی تو پھر ڈھولک والی مشہور ہوتی ۔
گاؤں میں کسی کے گھر سوگ ہوجاتا تو بھی اللہ وسائی سب سے پہلے پہنچنے والوں میں سے تھی اور شادی کے گھر کی طرح وہ سوگ والے گھر میں بھی باورچی خانہ سنبھال کر بیٹھ جاتی تھی۔ غم سے بے حال اہل خانہ کو اللہ وسائی کے ہوتے ہوئے یہ نہیں سوچنا پڑتا تھا کہ دوسرے گاؤں سے آنے والے شریکے کو کسی نے کھانا کھلا کر بھیجا یا نہیں اور کھانا آیا کہاں سے۔ اللہ وسائی اور گامو ماشکی جہاں سے بھی بندوبست کرتے سوگ والے گھر کا چولہا ٹھنڈا نہ پڑنے دیتے۔ اللہ وسائی ہر میت پر یوں بلک بلک کر روتی جیسے وہ اسی کا رشتہ دار تھا۔ حالانکہ اللہ وسائی نے کسی اپنے کی موت کبھی دیکھی ہی نہیں تھی۔ اُس کے ماں باپ اُس کے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی طاعون کا شکار ہوکر مرے تھے۔ دادا، دادی، نانا، نانی پہلے ہی نہیں تھے۔ رشتے کے جس چچا نے اُسے پال کر شادی کی تھی ۔ وہ ابھی بھی حیات تھے اور اُن کے اہل خانہ بھی مگر اللہ وسائی پھر بھی ہر موت پر اپنے رشتہ داروں کے نام لے لے کریوں روتی تھی جیسے اُس کا غم تازہ ہوگیاتھا۔



گاؤں والے ہر خوشی غمی میں اللہ وسائی کو پکارتے پھرتے تھے لیکن اگر کبھی نہیں پکارتے تھے تو تب نہیں پکارتے تھے جب کسی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا۔ پھر کسی کے گھر سے اللہ وسائی کے لئے نیوتا نہیں آتا تھا۔ وہ بے اولاد تھی نیک تھی تو کیا تھا، تھی تو بے اولاد اور بے اولاد عورتکی پرچھائیں بھی کسی کو اپنے گھر میں نہیں چاہیے تھی۔ وہ سب اللہ وسائی کو جانتے تھے۔ جانتے تھے کہ وہ نہ حسد کرتی ہے نہ جلن رکھتی ہے پھر بھی لوگوں کو اندیشہ ہوتا کہ اُس کی نظر نہ لگ جائے۔ اللہ وسائی دس سال سے بے اولاد تھی اور اُس نے جیسے اس بے اولادی کو بھی اللہ کی رضا سمجھ کر سرجھکا دیا تھا پر دنیا کو اللہ کی رضا سے سروکار نہیں ہوتا نہ اللہ کے حکم سے ۔ دنیا اپنے وہموں اور رواجوں پر چلتی ہے اور اللہ وسائی کو کسی سے اس بات پر بھی گلہ نہیں ہوتا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!