وہ خاموشی سے آس پڑوس میں بچے کی پیدائش پر آکر رقص کرنے والے ہیجڑوں کی آوازیں اور گانے سنتی جو گڑوی بجا بجا کرناچتے دعائیں دیتے، نومولود کی بلائیں لیتے اور اللہ وسائی اپنے گھر کے اندر چوکھٹ سے کان لگائے باہر کے اس شوروغل کو سن سن کر خوش ہوتی رہتی ۔ اپنی تتلائی زبان میں وہ بھی ہیجڑوں کے ساتھ آواز ملاتی نئے پیدا ہونے والے بچے کو بغیر دیکھے بغیر چھوئے لوریاں دیتی رہتی اور گامو اگر گھر پر ہوتا تو دل مسوس کر رہ جاتا صحن میں بیٹھے وہ حقہ پیتے کبھی اُس کو دیکھ کر ہنستا کبھی روتا اللہ وسائی کے قہقہوں میں اُس کی آنکھوں کی برسات دیکھتا جاتا اور پھر حق باہو کا کلام پڑھنے لگتا۔ وہ کلام جیسے اُس کے سارے زخموں پر مرہم کا کام کرتا تھا۔ وہ رب کی شان بیان کرتا جیسے رب کی محفل میں پہنچا ہوتا اور ہر بار اس کیفیت میں آنے کے بعد وہ جیسے توبہ توبہ کرتا۔ کہاں رب کہاں گامو ماشکی… اُس کی کیا اوقات کہ وہ رب سوہنے کے دربار میں ہونے کا بھی سوچے۔ وہ باآواز بلند اپنے آپ کوکوستااور اللہ وسائی اُسے کسی مرید کی طرح دیکھتی جاتی۔ اللہ وسائی کو گامو کے اُس کلام کی کھکھ سمجھ نہیں آتی تھی جس کو سننے کے لئے لوگ رُک جاتے تھے ۔ وہ بھی گامو کی طرح چٹّی ان پڑھ تھی اور اُسے اگر کچھ یاد تھا تو شادی بیاہ کے سہرے اور ٹپے اور بس۔ پر گامو کو حق باہو کا کلام پڑھتے سن کر اُس پر بھی جیسے وجدطاری ہوجاتاتھا اور وہ زار زار روتی تھی۔ وہ کلام کیا کہتا تھا یہ اُسے نہیں پتہ تھا مگر اُسے یہ پتہ تھا کہ وہ حق تھا۔ بزرگوں کی باتیں تھیں۔ نیکوں اور ولیوں کی اور اُس میں رب سوہنے کا نام آتا تھا۔ بار بار آتا تھا اور جب بھی گامو کلام پڑھتے ہوئے اللہ کا نام لیتا۔ دوپٹہ اوڑھے اللہ وسائی کچھ بھی کر رہی ہوتی وہ اپنی انگلیوں اور انگوٹھوں کو عقیدت سے چومتی پھر سینے پر ہاتھ لگاتی جیسے رب کو دل میں اُتار رہی ہو۔ اُس نے کبھی گامو کا کلام پڑھنے کی جرأت نہیں کی تھی۔ وہ تتلاتی تھی اور اُسے لگتا تھا وہ اُس کلام کو تتلا کے پڑھے گی تو بے ادبی کرے گی اور یہ کوئی ٹپہ اور سہرا تو ہے نہیں کہ کچھ بھی کہہ دو کچھ بھی گا جاؤ معافی ہی معافی ہے۔ رب سوہنا تو پکڑ کرتا ہے اور اُسے رب سوہنے سے بڑا ڈر لگتا تھا۔ پیار بھی آتا تھا پر ڈر زیادہ لگتا تھا۔ گامو گھر میں جب بھی وہ کلام پڑھ رہا ہوتا اللہ وسائی اُسے بغیر مخاطب کئے بیٹھی سنتی رہتی اُسے گامو پر پہلے سے بھی زیادہ پیار آتا تھا اور اُسے یقین تھا گامو اللہ کو بھی بڑا پیار ا تھا او رگامو اُس کی ایسی باتیں سن سن کر شرماکر ہنستا۔ اُس کا سانولا رنگ سرخ ہوجاتا اور وہ اللہ وسائی پر اور قربان جاتا وہ اُس کی زندگی کی ”ملکہ حسن ” تھی اور اُس کے چہرے پر وہ حسن صرف گامو کو ہی نظر آتا تھا جس کی زندگی کی دھوپ میں وہ چھاؤں کی طرح شامل ہوئی تھی۔ نہ گامو کو کبھی اُس کی تتلاہٹ بُری لگتی تھی نہ اُس کا چہرہ ۔ وہ اللہ وسائی کو اللہ والی سمجھتا تھا۔ کیونکہ وہ جو کہتی تھی پورا ہوجاتا تھا۔ اور اللہ وسائی اُس کی باتوں پر ہنستی تھی۔
”توبہ کریا کر گامو کس کو اللہ والی کہتا ہے۔”
وہ خود بھی کانوں کی لوؤیں پکڑتی ناراض ہوتی اور اُسے بھی ڈانٹتی۔ وہ خود گامو کو مومن سمجھتی اور ہر دم درود اُس سے کرواتی یہ جاننے کے باوجود کہ گامو کو قرآن نہیں آتا اور وہ نماز میں بھی مسجد میں صرف بسم اللہ پڑھ پڑھ کر آجاتا تھا۔ پر اللہ وسائی کو پھر بھی یقین تھا کہ گامو کی دعامیں بڑا اثر تھا۔
گاؤں والے ان دونوں کو ہیر رانجھا کہتے تھے اور گامو اور اللہ وسائی کِھل کِھل ہنستے موربن کے اتراتے پھرتے۔
دور کہیں گامو کی آواز گونج رہی تھی۔ لفظ سمجھ نہیں آرہے تھے مگر اُس کی آواز کی گونج گامو کے گھر آنے سے پہلے اللہ وسائی تک پہنچ گئی تھی۔ وہ تیز تیز ہاتھ چلاتی آتا گوندھنے لگی۔ جب تک گامو گھر پہنچا وہ آٹا گوندھ کر مٹی کا چولہا جلاچکی تھی اور اب لکڑیوں میں پھونکیں مار مار کر اُس آگ کو تیز کر رہی تھی تاکہ توا جلد گرم ہوجائے۔ لوہے کی پھونکتی لکڑیوں میں پھنسائے پھونکیں مار مار کر اللہ وسائی نے بالا آخر آگ تیز کرلی تھی جب گامو گھر کے کھلے دروازے کا پٹ کھول کر اندر آیا تھا۔
”لے بھلی مانس آج توچھاچھ آگئی چوہدری صاحب کے گھر سے۔”
گامو نے سلام دعا کے بعد تانبے کے برتن میں پڑی چھاچھ اُس کے پاس رکھتے ہوئے کہا۔ وہ اب اپنی مشک سے اپنے گھر کے پانی کے برتن بھر رہا تھا اور پھر وہ مٹی میں اٹے ہوئے اپنے ہاتھ ، پاؤں ، چہرہ اور بال دھونے بیٹھ گیا تھا۔
اللہ وسائی نے پہلے گامو کے مونڈھے پر پڑے کپڑے میں بندھے دانے کھولے اور اُنہیں اُس خالی برتن میں ڈالتے ہوئے ہنسی جو آج خالی ہوا تھا اورآج ہی پھر بھر گیا تھا۔ پھر وہ چھاچھ کے برتن سے پیالوں میں چھاچھ اُنڈیلنے لگی تھی۔ گامو تب تک منہ ، ہاتھ دھوکے آگیا تھا۔
”سن گامو پیر صاحب ملیں گے نا ہمیں۔”
اُس کے سامنے روٹی کی چنگیر رکھتی اللہ وسائی نے اُس سے پوچھا تھا۔
”کیوں نہیں ملیں گے چوہدری کرامت کے گھر آنے والی ہے اُن کی بیٹی بہو بن کر اور ہم اُن کی بیٹی کے ہونے والے سسرال سے ہوں گے۔ ہم سے کیوں نہیں ملیں گے۔” گامونے روٹی توڑنے سے پہلے چھاچھ کا گھونٹ لیتے ہوئے جیسے اکڑ کر کہاتھا۔
”لے توں اتنا سسرال والا۔” اللہ وسائی ہنسی تھی گامو کی اکڑ دیکھ کر۔
”پیر صاحب بڑے نیک ہیں بھلیے لوک… کوئی گدّی نہیں ہے اُن کی … کہتے ہیں اُن کو دعا ہے کسی کی کہ فیض ملے گا لوگوں کو اُن سے۔”گامو روٹی توڑ توڑ کر کھاتے ہوئے جیسے اُسے بتا رہا تھا۔
”ہم جیسے پتہ نہیں کتنے آتے ہیں اُن کے پاس اور وہ ہر ایک سے ملتے ہیں۔ کسی کو ٹھکراتے نہیں… نہ نہیں کرتے۔” گامو بڑا مرعوب بول رہا تھا۔
وہ آج برابر والے گاؤں میں پیر ابراہیم کے ڈیرے پر جانے والے تھے۔ پتہ نہیں اولاد کے لئے انہوں نے کہاں کہاں سے دُعا کروائی تھی۔ مگر پیر ابراہیم کا انہوں نے کبھی پہلے کسی سے سنا ہی نہیں تھا اور اب جب سُنا تھا تو گامو حیران تھا کہ پہلے کیوں نہیں سنا۔
”سنا ہے اُن کی بیٹی ست بھر ائی ہے اور بڑی سوہنی ہے۔” اللہ وسائی نے گاؤں کی عورتوں سے سنی سنائی باتوں کو تصدیق جیسے گامو سے کی تھی۔
”لے مجھے کیا پتہ کہ سوہنی ہے یا نہیں مگر ست بھرائی ہے پھر پیر صاحب کی بیٹی ہے اُس کے خوش نصیب ہونے کو اتنا ہی کافی ہے۔”گامو نے جواباً کہا تھا۔
”یہ تو تو نے ٹھیک کہا گامو۔” اللہ وسائی نے اُس کی ہاں میں ہاں ملائی تھی۔
”اور دیکھ تو پنڈ کی عورتوں کے ساتھ بیٹھ کر چوہدریوں کے گھر کی عورتوں کی باتیں نہ کیا کر ہم رزق کھاتے ہیں اُن کا … ہم باتیں کرتے اچھے نہیں لگتے اُن کے بارے میں۔” گامو نے جیسے بڑی سنجیدگی سے بیوی کو سمجھایا تھا۔
”میں باتیں نہیں کرتی گامو ۔ عورتیں کرتی ہیں۔ میں تو بس سنتی ہوں۔” اللہ وسائی نے جیسے اپنی صفائی دی۔ ”تو سنا بھی نہ کر… اُٹھ جایا کر۔” گامو نے کہا۔ اللہ وسائی نے چھاچھ کا پیالہ منہ سے لگالیا۔
٭…٭…٭