دلہن بنی تاجور آنکھیں بند کئے بگھّی کی سیٹ پر پشت سے ٹیک لگائے بیٹھے بیٹھے سوگئی تھی۔ اُس کے قدموں میں بیٹھی اُسے پنکھا جھلتی شکوراں کی نظر تاجور کے چہرے پر جمی ہوئی تھی۔ تاجور کو وہ روپ آیا تھا جو شکوراں نے کسی کسی دلہن پر دیکھا تھا۔ اُس کے چہرے سے شکوراں کی نظر ہٹتی تو اُس کے قیمتی لباس اور گہنوں میں اُلجھ جاتی۔ اُس کے جسم پر کپڑوں سے زیادہ زیور نمایاں تھا۔ کون سا گہنا تھا جو اُس نے اس وقت پہن نہیں رکھا تھا۔ جھومر ٹیکے سے نولکھا ہار اور گلو بند تک اور پھر پنج انگلے اور پازیبوں تک، شکوراں کی نظر اُلجھ اُلجھ جاتی۔ بھٹک بھٹک جاتی تاجور کی نیند نے جیسے اُسے ایک موقع دے دیا تھا کہ وہ اُسے سر سے پیر تک جی بھرکر دیکھے۔ وہ تاجور ہی کی ہم عمر تھی اور اُن کے گھر میں شروع سے تاجور کی خدمت گار تھی۔ وہ خدمت گار جسے اب تاجور کی شادی کے بعد اُس کے ساتھ ہی بھیج دیا گیا تھا۔ شکوراں کچے پکے راستے پر چلتی اورہر جھٹکے پر ہلتی بگھّی کے اندر بیٹھی اُسے پنکھا جھل جھل کر تھک چکی تھی۔ تاجور اُسی کے کہنے پر چند لمحوں کے لئے آنکھیں بند کرکے اور سر ٹکاکے بیٹھی تھی ورنہ اُس کا خیال تھا اتنے جھٹکوں میں اُسے نیند کہاں آنے والی تھی مگرپتہ نہیں وہ کیسی تھکن تھی کہ بگھّی کے اتنے جھٹکوں میں بھی کچھ دیر کے لئے تاجور کو اونگھ آگئی تھی۔ مگر پھر بگھّی کا پہیہ کسی بڑے گڑھے میں گر کر نکلا تھا اور تاجور بھی جسے اُس جھٹکے سے گرنے لگی تھی جب شکوراں نے پھرتی سے اُسے سنبھالا تھا۔ تاجور نے جیسے کرنٹ کھا کر آنکھیں کھولیں اور اپنی نیند سے بھری آنکھوں کے ساتھ پہلے شکوراں کو اور پھر اُس بگھّی کو دیکھا اور پھر یک دم اُسے یاد آیا تھا کہ وہ آج بیاہ کر اپنے سسرال جارہی تھی… پیر ابراہیم کی نازو نعم میں پلی بیٹی پرائی ہوگئی تھی۔ تاجور کا دل یک دم بھر آیا۔ وہ رخصتی کے وقت بھی روئی تھی اور پھوٹ پھوٹ کے روئی تھی حالانکہ چوہدری کرامت پیر ابراہیم کا پرانا دوست تھا پھر بھی تاجور ”پردیس” جارہی تھی۔
”نہ تاجور بی بی اب نہ رونا۔” شکوراں نے اس کی آنکھوں میں اُبھر تی نمی کو دیکھتے ہی لپک کر اُسے پھولوں کڑھا رومال پکڑایا تھا جسے تاجور نے تھام کر اپنی آنکھیں اُس سے پونچھی تھیں۔
”ابھی کتنا رستہ باقی ہے؟” اُس نے شکوراں سے یوں پوچھا جیسے وہ بگھی وہ چلا رہی تھی۔
” پتہ نہیں تاجور بی بی … میں دیکھتی ہوں۔”
شکوراں نے کہہ کر بگھی کی کھڑکی کا پردہ ہٹایا اور کھڑکی کو کھولنے کی کوشش کی۔ کھڑکی چند لمحوں میں ہی کھل گئی تھی اور اُس کے کھلتے ہی گرم لو کے کچھ تھپیڑے اندر آئے تھے۔ وہ بگھی سوکھے کھیتوں کے بیچوں بیچ چلچلائی دھوپ میں ایک کچے رستے پر ایک دوسری بگھی کے پیچھے دوڑ رہی تھی جس میں چوہدری شجاع اور چوہدری کرامت بیٹھے ہوئے تھے اور تاجور کی بگھی کے پیچھے وہ پچاس ٹانگے دوڑے چلے آرہے تھے جو اس کی بارات لینے گئے تھے۔
”ہائے میرے ربا اتنا سوکھا! جھوک جیون میں تو پتہ نہیں کب سے بارش نہیں ہوئی۔ ” شکوراں جیسے باہر سوکھے کھیت دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی تھی۔ تاجور نے بھی کھلی کھڑکی سے ایک نظر باہر ڈالی تھی۔
پیرابراہیم نے اُسے بتایا تھا کہ چوہدری کرامت کے گاؤں میں تین سال سے بارش نہیں ہوئی اور چوہدری کرامت نے تاجور کا رشتہ بھی اسی اُمید اور آس پر لیا تھا کہ پیر ابراہیم کی بیٹی جس جگہ جائے گی خوشحالی لے کر آئے گی ۔ تاجو رکی خوش بختی کے کچھ ایسے ہی چرچے تھے ہر طرف۔
پیر ابراہیم نے تاجور کا رشتہ کرتے ہوئے اُس سے اُس کی مرضی پوچھی تھی اور پھر اُسے چوہدری شجاع کو دور سے دکھا بھی دیا تھا اور تاجور نے بڑی خوشی سے چوہدری شجاع کے رشتے کے لئے ہاں کی تھی۔ وہ خوبرو تھا اور چوہدری کرامت کی حویلی میں چوہدرائن کی وفات کے بعد کوئی عورت نہیں تھی۔ تاجور نے جاکر جیسے وہ جگہ سنبھالی تھی ۔ وہ تحکما نہ مزاج رکھتی تھی اور اپنے باپ کے عقیدت مندوں کی عقیدت سے واقف تھی۔ وہ اپنے حسن پرنازاں تھی اور ست بھرائی کے اعزاز پر بے حد مغرور… تاجور نے ”تھوڑ ” کبھی دیکھی ہی نہیں تھی۔ نہ رنگ روپ میں نہ عزت میں نہ پیار میں نہ رزق میں اور نہ ہی قدر میں۔ باپ اُسے اُس کی ماں کی وفات کے بعد اگر ہاتھ کا چھالہ بناکر رکھتا تھا تو سات بھائی اُسے پلکوں پر اُٹھائے پھرتے تھے۔ تاجور نے نہ کبھی سنی ہی نہیں تھی اور ہاں کہنے کی اُسے عادت نہیں تھی۔
”بیٹا شوہر کی عزت کرنا اپس کی پگڑی کا شملہ کبھی اپنے کسی کام سے نیچے نہ ہونے دینا۔” پیر ابراہیم نے اُسے رخصت کرتے ہوئے کہا تھا۔ وہ شاید کچھ اور بھی کہتے مگر اُس کے سر نے آگے بڑھ کر انہیں روک دیا تھا۔
”تمہاری بیٹی نہیں رہی اب یہ ابراہیم ہماری بیٹی ہوگئی ہے اور میری بیٹی کو اتنی نصیحتیں مت کرو۔” وہ بچپن کے دوست تھے ایک دوسرے سے اس طرح کی باتیں کرلیتے تھے ورنہ پیر ابراہیم کے سامنے تو کوئی سراُٹھا کر بھی کھڑا نہیں ہوتا تھا۔
”اس کو راج کروانے کے لئے لے کر جارہا ہوں حکم دینے کے لئے ۔ حکم سننے کے لئے نہیں۔” انہوں نے کہہ کر بات ختم کردی تھی۔ پیر ابراہیم مسکرا کر رہ گئے تھے۔ تاجور کا سر کچھ اور اُٹھ گیا تھا۔
شکوراں ایک بار پھر کھڑکی سے گردن باہر نکال کر دیکھنے لگی تھی اور اس بار اُس نے یک دم خوشی سے جیسے قلقاری مارتے ہوئے تاجور سے کہا۔
”تاجور بی بی… میں نے بدلیاں دیکھی ہیں کالی اس طرف۔” وہ ہاتھ کے اشارے سے تاجور کو ایک سمت کا بتا رہی تھی۔ تاجور نے بے یقینی سے اُسے دیکھا پھر خود بھی کھڑکی سے باہر جھانکا اُس نے سوکھے کھیتوں کے پار آسمان پر واقعی سیاہ بادل اُمڈتے دیکھے۔
” آپ آج جھوک جیون آئی ہیں اور آپ کے برکت والے قدموں کے صدقے آج اللہ نے جھوک جیون کی زمین کی سن لی۔” شکوراں نے جیسے لہکتے ہوئے کہا۔ تاجور کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔
وہ بادل صرف اُن دونوں نے نہیں دیکھے تھے اگلی بگھی میں بیٹھے چوہدری کرامت اور چوہدری شجاع نے بھی دیکھے تھے۔ اور پیچھے بھاگتے پچاس تانگوں میں بیٹھی ہوئی بارات نے بھی پل جھپٹتے میں اُن بدلیوں نے آسمان گھیرا تھا اور پھر مینہ برسنے لگا تھا۔
جھوک جیون میں کوئی ایسا آیا تھا جس کے وجود کی برکت نے آسمان سے وہ پانی برسا دیا تھا جس کے برسنے کی دعائیں وہاں کے لوگ تین سالوں سے کرتے پھر رہے تھے۔
بگھی اب سرپٹ دوڑنے کی بجائے اُس برستے مینہ میں بہت سنبھل سنبھل کر چل رہی تھی اور اندر تاجور کسی ملکہ کی طرح غرور سے تن کر بیٹھی کھلی کھڑکیوں سے آنے والے بارش کے پانی میں بھیگے ٹھنڈے جھونکوں سے محظوظ ہورہی تھی اور شکوراں ہمیشہ کی طرح تاجو ربی بی کی خوش بختی کی کرامات دیکھتے ہوئے اُس پر قربان جارہی تھی۔ سوکھے کھیت پانی کو یوں پی رہے تھے جیسے پتہ نہیں کب سے پانی کے لئے ترسے تھے۔ وہ کچا رستہ جس پر بگھی بھاگ رہی تھی وہ بھی ابھی تک تیز بارش کے باوجود کیچڑ میں تبدیل نہیں ہوا تھا۔ زمین پانی پی رہی تھی اور پانی پیتی ہی جارہی تھی۔
”دیکھ شجاع پیروں کی اولادوں کا نصیب اور برکت دیکھی تو نے۔ اُن کے قدم جہاں پڑتے ہیں ویرانے آباد ہوجاتے ہیں۔ بنجر زمین پھوٹتے لگتی ہے۔” چوہدری کرامت اگلی بگھی میں برستی بارش میں سفر کرتے ہوئے چوہدری شجاع سے کہہ رہا تھا۔
”بس تاجور کاکبھی دل نہ دُکھانا کبھی کسی چیز کے لئے منع نہ کرنا اُسے۔ وہ سیاہ کا سفید کرے یا سفید کو سیاہ کرنے دینا۔ وہ پیر ابراہیم کی بیٹی ہے اُس کے طفیل بھاگ لگے رہیں گے تجھے بھی اور تیری نسل کو بھی۔” چوہدری کرامت نے حویلی پہنچنے کے رستے میں جیسے بیٹے کے لئے زندگی گزارنے کی حد بندی کردی تھی۔ وہ حویلی میں ملکہ نہیں بادشاہ لارہا تھا۔
تاجور برستی بارش میں حویلی پہنچی تھی اور چوہدریوں کی بہودیکھنے کے لئے گاؤں کے وہ سارے لوگ اُمڈ آئے تھے جو کسی نہ کسی وجہ سے بارات کے ساتھ نہیں جاسکے تھے ورنہ چوہدری کرامت نے پورے گاؤں کو بیٹے کی بارات میں مدعو کیا تھا۔
تاجور بگھی سے چادر کا گھونگھٹ کاڑھے حویلی کے صحن میں اُتری تھی اور ساتھ ہی کسی نے اُس پر چھتری تان لی تھی۔ کسی عورت نے اُس کا منہ نہیں دیکھا تھا نہ کسی کو اتنی ہمت ہوئی تھی کہ وہ آگے بڑھ کر دُلہن کامنہ دیکھنے کے لئے چادر ہٹاتا۔ اُس کارُعب اس لئے تھا کہ وہ چوہدریوں کی بہو تھی اور دھاک اس لئے بیٹھ گئی تھی کہ پیروں کی وہ بیٹی جھوک جیون میں بارش کے ساتھ آئی تھی۔
شکوراں کسی باڈی گارڈ کی طرح تاجور پر تنبو جتنی لمبی ریشمی کڑھائی والی کالی چادر ڈالے اُس کو ان عورتوں سے گزارتے ہوئے اندر لے جارہی تھی اور ان ہی عورتوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے تاجور نے پہلی بار گامو ماشکی اور اللہ وسائی کا نام سنا تھا۔ ایک عورت کسی دوسری سے کہہ رہی تھی۔
”کیا خوش بخت اولاد ہے گامو ماشکی کی کہ آج دائی نے اللہ وسائی کو پیٹ سے ہونے کی خبر دی اور آج ہی بارش ہونے لگی ۔ گامو تو مٹھائیاں بانٹتا پھر رہا ہے پورے گاؤں میں حالانکہ ابھی پہلے مہینے ہی کون مٹھائیاں بانٹتا ہے۔ ” دوسری عورت نے ہنس کے کہا تھا۔
”مجھے لگتا ہے بیٹا ہوگا۔”
”مجھے لگتا ہے بیٹی ہوگی اسی لئے بارش رحمت بن کر آئی ہے۔”
تاجور وہاں سے بھسم ہوتے ہوئے گزری تھی۔ وہ پورا رستہ اپنی برکت اور بخت کی باتیں سنتی آئی تھی اور یہاں کسی نے ایک لمحے میں کسی اور کو اُس کے بخت اور برکت کے ہم پلہ کردیا تھا اور وہ بھی وہ جو ابھی پیدا میں نہیں ہوا تھا بس ماں کے پیٹ میں آیا تھا۔ تاجور کا بس چلتا تو وہ ان عورتوں کو کھڑے کھڑے وہاں سے نکال دیتی وہ بھی دھکے دے کر۔ وہ اس کے محل کے درباری تھے کسی اور کے قصیدے کیسے پڑھ سکتے تھے۔ وہ ”آنے والا” تاجور کے دل و دماغ سے چپک کر بیٹھ گیا تھا۔ جھوک جیون میں چوہدری کرامت چوہدری شجاع کے بعد گامو ، اللہ وسائی اور اُن کا ہونے والا بچہ وہ پہلے تین لوگ تھے جن سے تاجور متعارف ہوئی تھی اور تعارف نہیں تھا وہ تیروں کی طرح اُس کے سینے پر لگے تھے۔
”کوئی اندر نہ آئے… میں آرام کروں گی۔ ” اپنے کمرے میں پہنچتے ہی تاجور نے شکوراں سے سرگوشی میں کہا تھا۔ ملکہ کو تخلیہ چاہیے تھا اُس آگ کو بجھانے کے لئے جو چند جملوں نے لگادی تھی۔
٭…٭…٭