Blog

cover-3 (3)

” چوہدرائن تو چھوٹے چوہدری کا رشتہ لے کر موتیا کے گھر جارہی ہیں چھوٹی چوہدرائن جی!”
ماہ نور کی ایک ملازمہ نے تقریباً تڑپتے ہوئے اُسے خبر سُنا ئی تھی۔ ایک لمحہ کے لئے ماہ نور کے دل کو کچھ ہوا تھا۔ پھر اُس نے اپنا چہرہ بے تاثر رکھتے ہوئے اُس سے کہا:
” جو بڑوں کی مرضی!”



ملازمہ دنگ اُس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔ وہ اپنے چھوٹے بیٹے کو کھلارہی تھی اور مکمل طور پر اُس کی طرف متوجہ تھی۔
” تو جاکر کپڑے دھو بچّوں کے۔”
اُسے وہاں سے ہٹانے کے لئے اُس نے کہا تھا۔
ملازمہ وہاں سے سیدھی باورچی خانے گئی تھی جہاں شکوراں موجود تھی اور اُس نے بلند آوازمیں اُسے یہ اطلاع دی تھی۔ لہسن چھیلتی شکوراں وہیں کی وہیں کھڑی رہ گئی تھی۔
” خبریں تو گاؤں میں بھی پھیلی ہوئی ہیں مگر چوہدرائن جی نے تو مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔”
اُس نے ماہ نور کی ملازمہ شیلو سے کہا۔
” کس منہ سے بتاتیں وہ، چوہدرائن جی تو چاہتی ہی نہیںایسا ہو پر پتہ نہیں اب کیسے مان گئیں۔ مجھے تو چھوٹی چوہدرائن کے لئے دکھ ہورہاہے۔اُن پر ظلم ہورہاہے۔”
شیلو نے آہ بھر کر کہا اور شکوراں کے ساتھ لہسن چھیلنے بیٹھ گئی۔
” پتہ نہیں ظلم کس پر ہوا اور کس نے کیا؟ بس اللہ سب کو ہدایت دے اور سب کو معاف کردے۔”
شیلو نے شکوراں کے جملے پر جیسے بے حد حیران ہوکر اُسے دیکھا تھا۔
…٭…

Comments(2)

    • Shahnaz Naima

    • 1 year ago

    Zaberdust as usual umaira Ahmad ka koi b novel hikat k baghair nahi hota tasawuf se pur mind blowing tahreer 💗💗💝💖💖💓😘😘😘💕💕💕💞💞💞💞💖💖💝💝💝😘😘😘😘

    • Ayeisha

    • 1 year ago

    Another Masterpiece MashaAllah. Heart touching story ,literally I started crying in the end… (waiting for another journey of Murad and Motiia ..)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!