Blog

cover-3 (3)

دیساں دا راجہ
میرے بابل دا پیارا
امبڑی دے دل دا سہارا
نی ویر میرا گھوڑی چڑھیا
گھوڑی چڑیا نی سیّوں گھوڑی چڑھیا



حویلی کے باہر کھڑے بینڈ باجے والے بارات کے تیار ہونے کے انتظار میںشادی بیاہ کے گانوں کی دھنیں بجارہے تھے اور بالکل اُسی وقت تاجور نے سُرخ کڑھائی والے کپڑے کے ساتھ ڈھکا ہوا لڈوؤں کا ایک تھال شکوراں کو تھماتے ہوئے کہا تھا:
” شگن کے لڈو ہیںدُلہن کے لئے۔ جاکر موتیا کو کھلا آؤ میں ابھی گاؤںمیں بھی بٹوانے کے لئے بھجوارہی ہوں۔”
شکوراں نے بے حد خوشی سے تھال تھاما تھا اور پھر ہنستے ہوئے کہا تھا:
”چوہدرائن جی! جوڑا لوں گی شگن کے لڈّو دلہن کو کھلانے کے لئے۔”
تاجور اُس کی بات پر ہنسی۔
” ایک نہیں دو جوڑے لے لینا۔ ایک اپنا اور ایک بتول کا۔ پر اپنے ہاتھ سے کھلا کر آنا موتیا کو پورا لڈّو۔”
شکوراںنے سر ہلاتے ہوئے کہا تھا۔
” جی جی! اپنے ہاتھ سے ہی کھلاؤں گی!”
وہ کہتے ہوئے تاجور کے کمرے سے نکل آئی تھی اور نکلتے ہوئے اُس کو عجیب سا وسوسہ آیا۔ وہ تھال تاجور نے اُسے کمرے میں کیوں دیا تھا جب کہ باقی سارے لڈّو تو حویلی کے باورچی خانے میں پڑے ہوئے تھے۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب شکوراں کو وہ زہر بھی یاد آیا اور تاجور کی وہ تاکید بھی کہ وہ اپنے ہاتھ سے لڈّو موتیا کو کھلا کر آئے۔
اُس کا دل پتے کی طرح کانپا تھا۔بے اختیار وہ باورچی خانے کی طرف آئی تھی۔ وہاں بہت سارے تھال تھے لڈوؤں کے۔ شکوراں نے وہ تھال وہاں رکھ کر اُس کا کپڑا اُٹھا کر ایک دوسرے تھال پر ڈالا اور تھا ل اُٹھا لیا۔
اُس کا دل یک دم مطمئن ہوا تھا۔
”میں خوامخواہ ہی غلط سوچ رہی تھی۔ چوہدرائن جی! کبھی ایسا نہیں کرسکتیں۔ اور اگر ایسا ہوا بھی تو کم از کم میرے تھال کے لڈو میں تو زہر نہیں ہوگا موتیا کے لئے۔




”سُن شیلو! یہ تھال رکھا ہے میں نے لڈوؤں کا۔ بلّی منہ مار گئی ہے انہیں۔ ذرا باہر پھنکوادینا۔”
اُس نے اندر آتی ہوئی شیلو سے کہا اور خود باہر نکل آئی۔شکوراں کو یقین تھا کہ چوہدرائن پر وہ خوامخواہ شک کررہی تھی، پھر بھی اُس نے اپنی طرف سے ساری احتیاطی تدابیر اختیار کرلیں۔ پر ایک چیز قسمت ہوتی ہے اور ایک چیز بدقسمتی، اور حویلی میں اُس دن بدقسمتی کا راج تھا۔ اُس راج کو شکوراں کیسے توڑسکتی تھی؟ شیلو نے شکوراں کی ہدایت سُن کر ہاں بھی کہہ دی تھی مگر اُس پر عمل نہیں کیا تھا۔ وہ اس وقت لڈو بانٹنے کے لئے لڈوؤں کے تھال لینے آئی ہوئی تھی نہ کہ لڈو پھینکنے کے لئے۔ وہ دوبارہ باورچی خانہ میں آئی تھی تو وہ شکوراں کی ہدایت بھی بھول چکی تھی اور یہ بھی کہ لڈوؤں کے کس تھال کو شکوراں نے پھینکنے کا کہا تھا۔
…٭…

Comments(2)

    • Shahnaz Naima

    • 1 year ago

    Zaberdust as usual umaira Ahmad ka koi b novel hikat k baghair nahi hota tasawuf se pur mind blowing tahreer 💗💗💝💖💖💓😘😘😘💕💕💕💞💞💞💞💖💖💝💝💝😘😘😘😘

    • Ayeisha

    • 1 year ago

    Another Masterpiece MashaAllah. Heart touching story ,literally I started crying in the end… (waiting for another journey of Murad and Motiia ..)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!