Blog

cover-3 (3)

”اب اُس کے سامنے نہ آنا تاجور! اب اُسے کرلینے دے وہ جو کچھ بھی کرنا چاہتاہے۔”
پیرابراہیم نے تاجور کے کچھ بھی کہنے سے پہلے ہی کہہ دیا تھا۔ وہ ماہ نور کو لئے اُن کے کمرے میں آئی تھی اور سلام کر کے بیٹھی تھی۔ پر اُس کے بات شروع کرنے سے بھی پہلے پیر ابراہیم نے بات ختم کردی تھی۔ وہ اُن کی بیٹی نہ ہوتی تو وہ تاجور کی شکل دیکھنا بھی نہ چاہتے۔



” یہ پوتی ہے آپ کی، اسے دیکھیں بابا جان! اس کا گھر تڑوارہے ہیں آپ۔ اس پر ایک کمی کو بیاہ کر لانے کی اجازت دے رہے ہیں مراد کو۔”
تاجور ماہ نور کا ہاتھ پکڑ کر اُسے کھینچ کر اُن کے سامنے لے کر کھڑی ہوگئی تھی۔ پیر ابراہیم نے ماہ نور کے بہتے ہوئے آنسوؤں کو دیکھا اور تاجور سے کہا:
” ہر بار تیری زبان سے کمّی کا لفظ تجھے میری نظروں میں چھوٹا کردیتا ہے تو سوچ تاجور تو رب کی نظروں سے کتنا گرجاتی ہوگی۔”
تاجور ایک لمحہ کے لئے ساکت ہوئی۔ بہو کے سامنے اُسے اپنے باپ کے منہ سے یہ جملہ تیر کی طرح لگا تھا۔
”رب نے اُن سے برتر بنا کر اُتارا ہے ہمیں۔ اُن کا حاکم بنایا، دانے والا بنایا۔”
وہ بے حد ناراضی سے کہتی گئی۔



”دکھا مجھے وہ کتاب جس میں لکھا ہے کہ رب نے تجھے برتر بنا کر اُتارا ہے۔ تجھے حاکم بنادیا تو تُو نے سب کو غلام سمجھ لیا۔ دانے والا بنایا ہے ناتو ایک دانہ اُگاکر دکھا جھوک جیون کے کھیتوں میں۔ ترس رہی ہے نا تو پانی کے لئے۔ شجاع کہتاہے سمجھ نہیں آتی نہر سے بھی پانی فصلوں تک نہیں پہنچتا، زمین پہلے ہی نہر کا پانی پی جاتی ہے۔ جس زمین پر لوگوں کے ساتھ دانے والے ظلم کرنا شروع کردیں، وہ بستیاں اُجڑجاتی ہیں۔ تو اب توبہ کیا کر صرف توبہ تاجور۔ تو بڑا ظلم کربیٹھی ہے اپنے آپ پر۔”
پیر ابراہیم کو تاجور نے زندگی میں پہلی بار اتنے غصّہ میں دیکھا تھا اور وہ بلند آوازمیں بات کرنا شروع ہوئے تھے تو تاجور بولنا ہی بھول گئی۔
” بس اب تو چلی جا یہاں سے، صرف شادی کی تیاری کر۔ جاکر موتیا کو کپڑے اور زیور دے کر آ۔ اُس کا قدم حویلی میں پڑے گا تو سوکھا ختم ہوجائے گا۔”
تاجور کو لگا پیر ابراہیم نے یہ سب کہہ کراُسے ماہ نور کے سامنے دو کوڑی کا کردیا تھا اور ماہ نور کو لگا تھا اُس کے دادا نے اُس کی پروا ہی نہیں کی۔ اتنی آسانی سے کسی اور کو مراد کی زندگی میں اُس کے برابر جگہ دے دی۔
وہ دونوں خاموشی سے سینے کے اندر بھانبھڑ لے کر نکلی تھیں۔
”پھو پھو! دیکھ لیا آپ نے؟ کچھ بھی نہیںکیا دادا جان نے اور اگر وہ یہ سب کہہ رہے ہیں تو میرے ابّو اور امّی نے کچھ نہیں کرنا میرے لئے۔ میں کیا کروں؟”
تاجور نے کمرے سے باہر آکر روتی ہوئی ماہ نور سے کہا:
” جب تک میں ہوں نا تیری آنکھوں میں آنسو نہ آئیںماہ نور! نہیں آئے گی موتیا حویلی میں۔”
تاجور نے بے حد عجیب لہجہ میں جیسے دو ٹوک اندازمیں اُس سے کہا:
” بس تجھے ساتھ دینا ہے میرا۔ ”
”پھوپھو میں سب کچھ کرنے کوتیار ہوں۔ آپ بتائیں کیا کرناہے؟”
ماہ نور نے جیسے سارے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا تھا۔
…٭…

Comments(2)

    • Shahnaz Naima

    • 1 year ago

    Zaberdust as usual umaira Ahmad ka koi b novel hikat k baghair nahi hota tasawuf se pur mind blowing tahreer 💗💗💝💖💖💓😘😘😘💕💕💕💞💞💞💞💖💖💝💝💝😘😘😘😘

    • Ayeisha

    • 1 year ago

    Another Masterpiece MashaAllah. Heart touching story ,literally I started crying in the end… (waiting for another journey of Murad and Motiia ..)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!