Blog

cover-3 (3)

مراد موتیا کے گھر سے حویلی نہیں گیا تھا، وہ دوسرے گاؤں اپنے نانا پیر ابراہیم کے پاس گیا تھا اور اُس نے اُنہیں سب کچھ بتادیا تھا۔ پیر ابراہیم کی جیسے زبان شل ہوگئی تھی۔ تاجور یہ کیسے کرسکتی تھی، اتنا بڑا گناہ کرنے کے لئے اُس نے ہمت کہاں سے لی تھی۔
”نانا جان آپ کی بیٹی نے مجھے اور موتیا کو پیار کرنے کی سزا دی اور وہ سزا اتنی بھاری نہیں ہوسکتی تھی۔ آپ بتائیں میں کیا کروں؟ کس سے جاکر اپنی ماں کی شکایت کروں؟ اللہ کے سوا کس کی عدالت میں لے کر جاؤں انہیں سزا دلوانے کے لئے؟ انہوں نے موتیا پر تہمت لگائی۔ میرا دل اُس سے اُٹھا دیا۔ پھر کیا ضروری تھا کہ میری بارات اُس کے گھر کے سامنے سے گزار کر لاتیں اور اُنہیں یہ غلط فہمی ڈالتیں کہ وہ اُن کے گھر بارات لے کر آرہی ہیں۔”وہ جیسے پھٹ پڑا تھا۔



”آپ باپ ہیں اُن کے، میں آپ کے سامنے شکایت لے کر آیا ہوں اُن کی۔ آپ کی بیٹی بہت بے رحم ہیں نانا جان! بے حد بے رحم ہیں۔”
پیرابراہیم کو لگا تھا جیسے وہ یہ سب کچھ سُن کر زمین میں دھنس رہے تھے۔
” تم اُسے معاف کردو مراد! میں اُس کی طرف سے تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتاہوں۔”
پیرابراہیم نے اُس کے سامنے ہاتھ باندھتے ہوئے کہا تھا۔مراد نے اُن کے ہاتھ باندھنے سے پہلے ہی اُ ن کے ہاتھ کھول دیئے تھے۔
” میں معاف کر ہی دوں گا نانا جان! میں تو بیٹا ہوں، میرے پاس تو معاف کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی نہیں ہے۔مگر وہ لوگ اُن کو کبھی معاف نہیں کریں گے جن کی بیٹی کی ایسی حالت کردی ہے انہوں نے۔”
” میں نے پہلے بھی موتیا سے معافی مانگی تھی، میں ایک بارپھر اُس کے گھر جاکر معافی مانگوں گا اُس سے مراد۔”
پیرا براہیم نے اُس سے کہا تھا اور اُس نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
” نہیں نانا جان! اب معافیوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ میں موتیا سے شادی کرنے جارہا ہوں اس جمعے کو۔ آپ نکاح پڑھائیں گے تو مجھے خوشی ہوگی۔نہیں پڑھائیں گے تو بھی میں نہیں رُکوں گا۔”
وہ جیسے اعلان کرنے والے اندازمیں اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔ پیر ابراہیم اُسے دیکھتے رہے پھر اُنہوں نے کہا۔
” ٹھیک ہے مراد! جو تمہارا فیصلہ وہی میرا۔ مگر ماہ نور کو کوئی سزا مت دینا۔ اُس کے ساتھ انصاف کرنا۔”
مراد اُنہیں دیکھتا رہا پھر اُس نے کہا۔
‘ ‘ میں موتیا کو اپنے پاس لندن میں رکھوں گا۔اُسے ابھی علاج کی ضرورت ہے۔ ماہ نور گاؤں میں ہی رہے گی۔آتا جاتا رہوں گا۔ کوشش کروں گا انصاف کروں، لیکن اگر نہ ہوسکا تو مجھے معاف کردیں۔ آپ لوگ ماہ نور کو میری زندگی میں نہ لاتے تو وہ خوش ہوتی آج کہیں اور۔”
وہ جیسے اپنا فیصلہ سُنا کر اُن سے مل کر وہاں سے چلاگیا تھا اور پیر ابراہیم کو سوچوں میں ڈال گیا تھا۔ اُنہیں یوں لگ رہا تھا اُن کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تسبیح میں سے آگ نکل رہی تھی۔ وہ دانے اپنی آگ اُن کے ہاتھ میں منتقل کرتے ہوئے جیسے اُنہیں آنے والے طوفانوں سے خبردار کررہے تھے۔ کوئی چیز اُن کے دل کو مٹھی میں لے رہی تھی۔ پتہ نہیں وہ کون سی انہونی تھی جس کی خبر اُن تک آرہی تھی۔ پر کیا ہونے والا تھا وہ اُس سے بے خبر تھے۔
…٭…

Comments(2)

    • Shahnaz Naima

    • 1 year ago

    Zaberdust as usual umaira Ahmad ka koi b novel hikat k baghair nahi hota tasawuf se pur mind blowing tahreer 💗💗💝💖💖💓😘😘😘💕💕💕💞💞💞💞💖💖💝💝💝😘😘😘😘

    • Ayeisha

    • 1 year ago

    Another Masterpiece MashaAllah. Heart touching story ,literally I started crying in the end… (waiting for another journey of Murad and Motiia ..)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!