Blog

cover-3 (3)

تاجور نے موتیا کے گھر کے دروازے کو دیکھا تو اُسے یاد آیا تھا وہ کتنے تکبر سے مراد کی بارات اُس کے گھر کے دروازے کے باہر سے لے گئی تھی اور آج وہ وہاں کھڑی تھی، دروازہ کھلا تھا اور اللہ وسائی اُن کے استقبال کے لئے کھڑی تھی۔ پوری گلی کے دروازوں سے گاؤں کی عورتیں اور بچے باہر جھانک جھانک کر دیکھ رہے تھے۔ چوہدری کمیوں کے گھر رشتہ لینے آئے تھے۔ یہ منظر شاید وہ پہلی اور آخری بار ہی دیکھ رہے تھے۔
اللہ وسائی سے گلے ملتے ہوئے تاجور نے سوچا کہ اُس نے ایسا کون سا گناہ کیا تھا کہ اُسے یہ دن دیکھنا پڑرہا تھا۔ یہ عورتیں اُس کے پیروں میں بیٹھی ہوتی تھیں اور آج وہ اُسے دنیا دکھاوے کے لئے گلے لگانے پر مجبور تھی۔
” جی آیاں نوں!”
اللہ وسائی نے اُنہیں کہا تھا ، اُس کی زبان پر کوئی گلہ آیا تھا نہ اُس کے چہرے اور آنکھوں میں نفرت چھلکی تھی۔ وہ بڑا دل کر کے چوہدریوں سے مل رہی تھی۔ جو موتیا پر ہوا تھا، وہ بھی معاف کر کے۔ جو گامو پر گزری تھی ، وہ بھی بُھلا کر۔
صحن میں پڑی چارپائیوں پر رنگدار کھیس ڈال کر اُن کے بٹھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔تاجور اور چوہدری شجاع دونوں بیٹھ گئے تھے۔
” اپنی بیٹی کو ہماری بیٹی بنادیں بہن جی!”
چوہدری شجاع نے کسی تمہید کے بغیر بیٹھتے ہی کہا تھا۔
” اس گھر میں موتیا کے لئے ہمیں بہت پہلے آنا تھا۔ یہ ہماری کوتاہی تھی کہ ہم نہیں آئے۔ جو بھی ہم سے ہوا، ہمیں معاف کردیں پر موتیا کو ہماری بیٹی بنادیں۔”
چوہدری شجاع کہہ رہا تھا اور تاجور کو اُس کے برابر بیٹھے لگ رہا تھا جیسے کوئی اُس کے سر پر جوتے ماررہا ہو۔ چوہدری شجاع کے الفاظ نے جیسے اُسے مجرم بنا کر وہاں بٹھادیا تھا۔
”بس چوہدری جی! اور کچھ نہ کہنا اب۔آپ دونوں خود چل کر آگئے ہمارے گھر، ہم نے سب معاف کیا۔ موتیا آپ کی بیٹی ہے۔ جب چاہے لے جائیں۔”
اللہ وسائی نے تاجور کو جیسے مزید شرمندگی سے بچالیا۔
” جاؤ تاجور! یہ زیور اور کپڑے موتیا کو دے کر آؤ۔”
چوہدری شجاع نے تاجور سے کہا اور ساتھ اُن ڈبوں کی طرف اشارہ کیا جو مراد شہر سے لے کر آیا تھا۔ تاجور نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے اللہ وسائی کو دیکھا اور پھر وہ ڈبے اٹھاتی ہوئی اندر چلی گئی۔ اللہ وسائی اُس کے پیچھے آئی تھی۔



کمرے میں موتیا اچھے سے کپڑے پہن کر بیٹھی ہوئی تھی اور تاجور کے قدموں کی آواز پر اُس نے سر اُٹھا کر اُس کو دیکھا تھا۔ دونوں کی نظریں ملی تھیں اور پھر بہت دیر تک وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتی رہیں۔ پھر تاجور نے آگے بڑھ کر وہ ڈبے اُسی چارپائی پر رکھ دیئے تھے جس پر موتیا بیٹھی ہوئی تھی اور وہ خود بھی وہیں بیٹھ گئی تھی۔
” یہ مجھے پہچانتی ہے؟”
تاجور نے موتیا کی نظروں سے جیسے گھبرا کر اللہ وسائی سے پوچھا تھا۔
” ہاں جی! سب کو پہچانتی ہے۔ اب تو بولتی بھی ہے، پر بہت تھوڑا۔ مجھے پکا یقین ہے جس رب سوہنے نے زبان لوٹائی ہے،و ہ موتیا کو پہلے جیسا کردے گا۔”
اللہ وسائی نے بے حد خوشی اور یقین سے کہا۔ تاجور نے ایک بار پھر موتیا کو دیکھا اور وہ اُن آنکھوں کی تاب نہیں لاسکی۔ اُس کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا جس نے اُسے نظریں چرانے پر مجبور کردیا تھا۔
اپنے بیگ کو کھول کر اُس نے اس میں سے کچھ روپے نکالے اور موتیا کا ہاتھ پکڑنا چاہا اور اُس میں پہنا ہوا ہار دیکھا۔ اُن نوٹوں کو موتیا کے ہاتھ میں رکھنے کے لئے اُس نے موتیا کا ہاتھ کھولنا چاہا لیکن وہ نہیں کھول سکی۔ اُس نے ہاتھ مٹھی کی طرح بھینچ لیا تھا۔ تاجور نے موتیا کو دیکھا پھر اُس کی مٹھی کھولنے کے لئے جیسے جدوجہد کی اور ایک بار پھر ناکام رہی۔ وہ مشتعل ہوئی تھی۔
” ہاتھ کھولو موتیا، ہاتھ کھولو!”
اللہ وسائی جیسے تاجور کی مد د کو آئی اور اُس نے بھی موتیا کی مٹھی کھلوانی چاہی وہ بھی ناکام رہی اور اُس نے کچھ شرمندہ ہوکر تاجور کو دیکھا۔
”رہنے دو، تم رکھ لو۔” تاجور نے بے حد سردمہری سے کہا تھا اور وہ نوٹ اللہ وسائی کو پکڑادیئے تھے۔ اللہ وسائی نے ساتھ ہی اُس سے کہا:
” میںشربت لے کر آئی جی بس دو منٹ!”
تاجور کے روکتے روکتے بھی وہ وہاںسے چلی گئی تھی اور اُس کے جانے کے بعد تاجور نے ایک بار پھر موتیا کو دیکھا۔
” تجھے مراد ہی کیوں چاہیے تھا؟ کوئی اور بھی مل سکتا تھا تجھے۔ وہ دو بچوں کا باپ ہے۔ تو نے پتہ نہیں کیا جادو کیا ہے اُس پر۔ کیا پڑھ کر پھونکا ہے کہ اپنے حواس میں ہی نہیں ہے وہ۔”
تاجور یہ سب کہنے وہاں نہیں آئی تھی مگر یہ سب کہے بغیر نہیں رہ سکی۔ اُس کا خیال تھا وہ اُسے جو کچھ کہہ رہی تھی، اُس کا کوئی جواب اُسے نہیں ملے گا نہ ہی وہ اُن باتوں کو دہراپائے گی۔
موتیا اُس کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اُس نے تاجور کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ کھول دیئے۔اُس کے ہاتھوں پر مہندی تھی اور مہندی میں مراد کا نام لکھا ہوا تھا۔ تاجور کی آنکھوں میں جیسے خون اُمڈ آیا تھا۔
اُس نے آگے بڑ ھ کر موتیا کا ماتھا چوما اور اُس سے کہا:
” نام ہتھیلی پر لکھ لینے سے نصیب نہیں بدلتا۔”
اندر شربت کا گلاس لاتی ہوئی اللہ وسائی نے اُس کا جملہ نہیں سُنا تھا۔ بس تاجور کو موتیا کا ماتھا چومتے دیکھا تھا اور وہ نہال ہوگئی تھی۔



” میری داڑھ میں درد ہے اللہ وسائی! یہ ٹھنڈا میٹھا شربت نہیں پی سکتی۔ تیاریاں کرنی ہیں، بس چلتی ہوں۔ موتیا کے لئے شگن کی مٹھائی بھیجوں گی اُسے ضرور کھلانا، ہمارے خاندانی لڈّو۔”
اُس نے کہا تھا اور اللہ وسائی کو ایک بار پھر گلے لگا کر وہ باہر نکل گئی تھی۔
چوہدریوں کے گھر سے جانے کے بعد سارے گاؤں کی عورتیں مبارکبادوں کے ساتھ جیسے اللہ وسائی کے گھر اُمڈ آئی تھیں۔ اللہ وسائی نے مٹھائی اور پھلوں کے ٹوکرے صحن میں رکھ کر جیسے گاؤں والوں کے لئے کھول دیئے تھے۔ گاؤں کی عورتوں نے پھل اور مٹھائی کھاتے ہوئے ڈھولک پر شادی بیاہ کے گیت گانے شروع کردیئے تھے۔ وہاں جیسے عید جیسا سماں ہوگیا تھا۔
…٭…

Comments(2)

    • Shahnaz Naima

    • 1 year ago

    Zaberdust as usual umaira Ahmad ka koi b novel hikat k baghair nahi hota tasawuf se pur mind blowing tahreer 💗💗💝💖💖💓😘😘😘💕💕💕💞💞💞💞💖💖💝💝💝😘😘😘😘

    • Ayeisha

    • 1 year ago

    Another Masterpiece MashaAllah. Heart touching story ,literally I started crying in the end… (waiting for another journey of Murad and Motiia ..)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!