Blog

cover-3 (3)

مٹّی سے اٹے اُس صندوق کو کھول کر اللہ وسائی نے اُس رات سالوں بعد وہ جوڑا نکالا تھا جو اُس نے موتیا کی شادی کے لئے بنایا تھااور اُسی صندوق میں موتیا کے جہیز کے سارے کپڑے تھے جو اللہ وسائی پتہ نہیں کتنے سالوں سے کاڑھتی اور اکٹھی کرتی آئی تھی۔ اُس نے و ہ لال دوپٹہ نکال کر بہتے آنسوؤں کے ساتھ ایک بار پھر موتیا کے سر پر ڈالا تھا۔ موتیا ہنسی تھی۔
”امّاں!”
اُس نے کہا تھا اور اللہ وسائی جیسے نہال ہوگئی تھی۔



”ماں صدقے! ماں واری!”
موتیا کی آواز جیسے اُس کے کانوں میں رس گھول رہی تھی۔ وہ صرف چند ہی لفظ تھے جو موتیا بول رہی تھی مگر وہ چند لفظ بھی اللہ وسائی پر شادیٔ مرگ طاری کرنے کے لئے کافی تھے۔ اُس نے شام ہی کو پورے گاؤں میں میٹھے چاول بنا کر بانٹے تھے۔ گاؤں والے جیسے جوق در جوق اُس کے گھر موتیا کو دوبار ہ باتیں کرتا دیکھنے کے لئے آئے تھے پر اللہ وسائی نے موتیا کو کسی کے سامنے نہیں آنے دیا۔ وہ بُری نظر سے ڈرتی تھی۔پہلے بھی اُسے لگتا تھا موتیا کو کسی کی بُری نظر ہی لگی تھی۔ اور وہ یہ سب دوبارہ ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اُسے اب بھی مراد کے وعدوں پر یقین نہیں تھا۔ پر وہ پھر بھی اُس صندوق کو کھولنے سے اپنے آپ کو روک نہیں پائی تھی۔
اُس لال دوپٹّے نے آج بھی موتیا کوعجیب ہی روپ دیا تھا۔ اللہ وسائی اُس سے نظریں ہی نہیں ہٹاپائی۔ اُس نے کتنے عرصے بعد موتیا کو ہنستے دیکھا تھا۔اُسے گامو یادآیا تھا، وہ ہوتا تو۔۔۔ اُس نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر جیسے اُس آہ کو روکا تھا جو اُس کے خیال پر پتہ نہیں دل کے کس حصّے سے نکلی تھی۔
موتیا اسی ہی طرح دوپٹہ اوڑھے بیٹھی تھی، اللہ وسائی اُٹھ کر چھتی پر سے وہ ڈھولک بھی اُتار لائی جو وہ موتیا کی شادی پر لائی تھی اور پھر اُسے بجا نہیں پائی۔ ڈھولک کی رسی کستے ہوئے اُ س نے موتیا کے سامنے بیٹھ کر ڈھولک بجانا شروع کیا۔
کُنڈا لگ گیا تھالی نوں
ہتھاں وچ مہندی لگ گئی
اک قسمت والی نوں
موتیا چمکتے چہرے کے ساتھ بیٹھی اللہ وسائی کا ٹپہ سنتی رہی اور پھراُس نے اٹک اٹک کر ساتھ گانا شروع کردیا تھا۔ اُس کے گانے پر اللہ وسائی نے ڈھولک کی تھاپ تیز کردی۔
اُس رات اُس گھر سے آنے والی ڈھولک کی آواز اور اللہ وسائی کا گیت آس پاس کے بہت سے گھروں میں لوگوں نے سُنا تھا۔اوراُس دن بہت سے لوگوں نے چوہدری مرادکو اُ ن کی گلی اور گھر میںآتے جاتے بھی دیکھا تھا۔ سرگوشیاں اور چہ مگوئیاں شروع ہوگئی تھیں پر اُن سرگوشیوں اور چہ مگوئیوں میں بھی موتیا اور اللہ وسائی کے لئے خوشی ہی تھی۔
…٭…

Comments(2)

    • Shahnaz Naima

    • 1 year ago

    Zaberdust as usual umaira Ahmad ka koi b novel hikat k baghair nahi hota tasawuf se pur mind blowing tahreer 💗💗💝💖💖💓😘😘😘💕💕💕💞💞💞💞💖💖💝💝💝😘😘😘😘

    • Ayeisha

    • 1 year ago

    Another Masterpiece MashaAllah. Heart touching story ,literally I started crying in the end… (waiting for another journey of Murad and Motiia ..)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!