موتیا کے گھر سے حویلی تک واپسی کا سفر جیسے تاجور کے لئے قیامت کا سفر تھا۔ پورے گاؤں کے سامنے سر اور ناک نیچی کر کے موتیا کے گھر رشتے کے لئے جانا تاجورکیسے پل بھر میں بھول جاتی۔
حویلی کے اندر جاتے ہی اُس کا سامنا ماہ نور سے ہوا تھا۔ اُس کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں۔ تاجور نے آگے بڑھ کر اُس کو اپنے سینے سے لگالیا۔
”تیرا سہاگ کسی اور کا نہیںہوگا ماہ نور! تجھے زبان دی ہے تو تاجور زبان سے نہیں پھرے گی۔”
اُس نے مدھم آواز میں ماہ نور کے کانوں میں سرگوشی نہیں کی تھی جیسے امرت گھول دیا تھا۔
” اپنا کمرہ مراد کو دے دے اور اُسے کہہ کہ وہ اُسے سجالے موتیاکے لئے۔ اُسے یقین دلا دے کہ تجھے اور مجھے کوئی اعتراض نہیں رہا اس شادی پر۔ ہم اُس کی خوشی میں راضی ہیں۔”
اُس نے ماہ نور کو الگ کرتے ہوئے اُس ہی دھیمی آواز میںکہا تھا۔ ماہ نور نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سر ہلادیا۔ تاجور اگر اُسے یہ سب کہہ رہی تھی تو یقیناً وہ کچھ ٹھان کر بیٹھی تھی اور جو وہ ٹھان کر بیٹھی تھی اُس کے کامیاب ہونے پر ماہ نور کو اندھا یقین تھا۔
ایک منصوبہ انسان کا ہوتاہے، ایک منصوبہ رحمان کا اور اگر انسان رحمان کے منصوبے کو جان سکتا تو وہ کبھی تباہی کے اُس گڑھے میں نہ گرتا جو اُس کے اپنے منصوبوں کا نتیجہ ہوتاہے۔
…٭…
Shahnaz Naima
Zaberdust as usual umaira Ahmad ka koi b novel hikat k baghair nahi hota tasawuf se pur mind blowing tahreer 💗💗💝💖💖💓😘😘😘💕💕💕💞💞💞💞💖💖💝💝💝😘😘😘😘
Ayeisha
Another Masterpiece MashaAllah. Heart touching story ,literally I started crying in the end… (waiting for another journey of Murad and Motiia ..)