” یہ تمہارا کمرہ ہے ماہ نور! یہاں موتیا کو نہیں لاؤں گا میں۔تمہاری کوئی چیز تم سے لے کر اُسے نہیں دوں گا۔”
مراد نے دوٹوک اندازمیں ماہ نور کی پیش کش کو ٹھکرادیا تھا۔ وہ کمرے کی چابی اور زیورات کی الماری کی چابی اُسے دینے آئی تھی اور وہ برہم ہوگیا تھا۔
”اس حویلی میں بہت کمرے ہیں۔ میںاُسے چند دنوں کے لئے کہیں بھی رکھ سکتاہوں۔”
”آپ کا کمرہ حویلی کا سب سے اچھا کمرہ ہے۔ آپ اُسے وہاں رکھیں۔ میں بچو ں کے ساتھ کہیں بھی رہ لوں گی۔”
ماہ نور نے اُس سے کہا تھا۔
” میں تم سے اور بچوں سے بہترین کمرہ نہیں چھینوں گا۔ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ”
مراد نے جواباً کہا تھا۔
” میری ماں نے مجھے موتیا سے چھین کر تمہارابنایا تھا، پر میں تم سے کچھ بھی چھین کر موتیا کو نہیں دوں گا۔”وہ کہہ رہا تھا۔
”موتیا اس حالت میں نہ ہوتی تو میں خوش ہوتا۔وہ اگر کسی دوسرے کی ہوجاتی تب بھی اگر وہ اُسے خوش رکھ سکتا۔ نہ میں ضد میں ہوں ، نہ میں محبت کا اتنا مارا ہوں کہ اُس کے بغیر نہ رہ سکوں، لیکن میں کفارہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ میں اپنی ماں اور اپنے گناہ کا کفار ہ ادا کرنا چاہتاہوں۔ اُس کو اِس حال میں میں نے پہنچایا ہے، تو نکالنا بھی مجھے ہے۔”
وہ ایک بار پھر ماہ نور کو جیسے تسلّی دینے کی کوشش کررہا تھا کہ وہ اُس کا بھی تھا۔
” محبت کے مارے نہیں ہیں اور اُس کے بغیر جی سکتے ہیں تو اُس سے نکاح کئے بغیر بھی اُس کی مدد کرسکتے ہیں۔”
ماہ نور نے عجیب سے لہجہ میںجیسے اُس ہی کا جملہ اُس پر پھینکا تھا۔ وہ ایک لمحے کے لئے خاموش رہا، پھر اُس نے کہا:
” تم میرے اور اُس کے تعلق کو سمجھ ہی نہیں سکتی ماہ نور۔ نہ یہ نکاح کا محتاج ہے، نہ یہ جسم کی طلب ہے۔ وہ میری روح کا حصّہ ہے۔ مرتے وقت بھی میرے ساتھ رہے گی، چاہے کہیں بھی ہو، کسی کے بھی ساتھ ہو۔ یہ تعلق میںتوڑسکتا تو اُس دن ہی توڑدیتا جب میں نے اُس پر شک کرکے اُسے چھوڑا تھا پر ماہ نور میں اُس سے تعلق نہیں توڑسکا نہ توڑسکتا ہوں۔ تعلق توڑ نہ سکے انسان توپھر جوڑلینا چاہیے۔”
ماہ نور اُس مرد کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔وہ اُسے جو داستانِ امیر حمزہ سنا رہا تھا، اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی۔ وہ مراد کی موتیا نہیں تھی، ماہ نور تھی۔ حسد کرسکتی تھی، صبر نہیں کرسکتی تھی۔ مگر وہ سامنے بیٹھے ہوئے مرد سے کوئی گِلہ بھی نہیں کرسکتی تھی۔ اُس نے اُسے کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی تھی۔ کبھی بُرا سلوک نہیں کیا تھا۔ بُرا لفظ نہیں کہا تھا۔ کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی۔ اور وہ اُس سے وعدہ کررہا تھا کہ وہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا، پھر بھی صبر نہیں ہورہا تھا۔
مراد نے ایک بار پھر اُسے سینے سے لگایا تھا۔ وہ اُسے تھپک رہا تھا، یقین دلارہا تھا کہ اُس سے کچھ نہیں چھنا۔ نہ تخت ، نہ سلطنت۔ بس بادشاہ اُس کا نہیں رہا۔
…٭…
Shahnaz Naima
Zaberdust as usual umaira Ahmad ka koi b novel hikat k baghair nahi hota tasawuf se pur mind blowing tahreer 💗💗💝💖💖💓😘😘😘💕💕💕💞💞💞💞💖💖💝💝💝😘😘😘😘
Ayeisha
Another Masterpiece MashaAllah. Heart touching story ,literally I started crying in the end… (waiting for another journey of Murad and Motiia ..)