ماہ نور ٹھنڈے جسم کے ساتھ تاجور کو دیکھتی ہی رہ گئی۔ جو حل وہ اُس کے سامنے رکھ رہی تھی، اُسے سُن کر ایک لمحہ کے لئے تو ماہ نور کو پسینہ ہی آگیا تھا۔
”اُسے زہر دے کر ماردیں مگر پھو پھو!”
اُس نے کچھ کہنا چاہا اور تاجور نے اُس کی بات کاٹ دی۔
” تیرے پاس اگر مگر کا راستہ ہی نہیں ہے ماہ نور۔ یا تو رحم کھالے یا اپنا گھر تڑوا لے۔”
تاجور نے کہا تھا۔
” اتنے گناہ کئے ہیں زندگی میں ایک گناہ اور سہی۔ بیٹے، شوہر اور باپ کی نظروں سے تو گر ہی گئی ہوں پہلے۔ اب اپنی نظروں میں گر کے جی نہیں سکوں گی۔ اپنی نسل کمّی کمینوں کے ساتھ نہیں ملاسکتی میں۔”
تاجور نے دوٹوک اندازمیں اعلان کیا تھا۔
” تو ساتھ آئے یا نہ آئے، میں موتیا کو زہر دو ں گی۔”
ماہ نور نے یکدم اپنا ہاتھ تاجور کے ہاتھوں پر رکھتے ہوئے کہا۔
” میںآپ کے ساتھ ہوں پھو پھو! ”
تاجور اُسے دیکھ کر مسکرادی تھی۔
…٭…
Shahnaz Naima
Zaberdust as usual umaira Ahmad ka koi b novel hikat k baghair nahi hota tasawuf se pur mind blowing tahreer 💗💗💝💖💖💓😘😘😘💕💕💕💞💞💞💞💖💖💝💝💝😘😘😘😘
Ayeisha
Another Masterpiece MashaAllah. Heart touching story ,literally I started crying in the end… (waiting for another journey of Murad and Motiia ..)