” یہ تو نے کیا کیا بتول؟”
شکوراں دنگ بیٹی کا چہرہ دیکھ رہی تھی جس نے موتیا کے گھر سے آتے ہی ماں کو سب کچھ بتادیا تھا۔ یوں جیسے اپنے ضمیر سے بوجھ اُتار پھینکنے کی کوشش کی ہو۔
”امّاں سعید! کے لئے کیا جو بھی کیا۔ یہ نہیں پتہ تھا کہ موتیا پاگل ہوجائے گی۔ یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ چوہدرائن یہ سب کریں گی اُس کے ساتھ ورنہ سوچ لیتی۔”
وہ اپنے ہاتھ مسلتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ شکوراں نے سینہ پیٹنے والے اندازمیں ہاتھ سینے پر مارتے ہوئے کہا۔
”اتنا بڑا گناہ کمایا! تجھے حوصلہ کیسے ہوا یہ سب کرنے کا؟”
”پیار میں مجبور ہوگئی تھی امّاں! یہ نہ کرتی تو داج نہ ملتا! داج نہ ملتا، تو سعید نہ ملتا۔”
بتول ماں سے نظریں نہیں ملاپارہی تھی۔
” تیری بچپن کی سہیلی تھی بتول! تو نے رول دیا اُسے اپنے پیار میں۔ ہائے ہائے تو نے ماں کو بھی گناہ گار کردیا اپنے ساتھ۔”
شکوراں اب اپنے گال پیٹ رہی تھی۔
”تین سال سے تڑپ رہی ہوں امّاں۔ قسم لے لے جو ایک دن بھی چین کی نیند سوئی ہوں۔ کانٹوں پر لوٹتی ہوں ہر رات ، میں نے سوچا ہی نہیں تھا موتیا اور اُس کا خاندان اِس طرح رُل جائیں گے۔ امّاں جو قسم چاہے لے لے پر میری بات کا یقین کرلے۔ میں نے نہیں سوچا تھا کہ موتیا کا یہ حال ہوجائے گا۔”
وہ روتی جارہی تھی اور کہتی جارہی تھی۔
”تو نے چوہدری مراد کے سامنے کہا ہے یہ سب کچھ۔ چوہدرائن نے کل میری گردن اُتاردینی ہے اور تیری بھی۔ میں تجھے بتارہی ہوں۔”
شکوراں بے حد پریشان تھی۔
”امّاں کاٹ دے اب وہ میری گردن مجھے پروا نہیں۔ یہ اولاد ہونے والی ہے تو مجھے اپنے گناہ کے بوجھ کا احساس ہونے لگا ہے۔ اپنے انجام سے کبھی خوف نہیں آیا، پر اس بات سے خوف آنے لگا ہے کہ کہیں میرا گناہ وبال کی صورت میری اولاد کے گلے نہ پڑجائے۔ کتنی بار میری کوکھ ہری ہوکر اُجڑی ہے۔ہر بار اُجڑنے پر مجھے موتیا یاد آئی۔ تجھے پتہ نہیں آج کتنی سُکھی ہوکر یہاں بیٹھی ہوں۔ اب چاہے کوئی پھانسی لگادے چاہے گردن کاٹ دے، پر بتول نے جھوٹ کا بوجھ نہیں اُٹھانا۔ میری اب بس ہوگئی ہے۔”
بتول عجیب تھکن زدہ اندازمیں چارپائی پر بیٹھی ہوئی تھی اور شکوراں بس دوپٹے کے پلّو سے اپنے آنسو صاف کرتے جارہی تھی۔ وہ اب اس حالت میں اسے اور بُرا بھلا کیا کہتی پر اُس رات شکوراں کو نیند نہیں آئی۔ اللہ وسائی کی بددعائیں اُس کے کانوں میں گونجتی رہیں اور یہ سوچ سوچ کر اُس کا کلیجہ منہ کو آتا رہا کہ یہ خود اُس کی اپنی نسل، اپنی بیٹی بتول تھی جس کے لئے وہ اُجڑجانے کی بددعائیں کررہی تھی اور جس کی اگلی نسل کا وہ خاتمہ دیکھنا چاہتی تھی۔
اُس نے اُس رات اُٹھ اُٹھ کر گھڑے سے پانی پیا تھا،پر پتہ نہیں زبان پر کانٹے بڑھتے ہی کیوں گئے تھے۔ گلا خشک کیوں ہوگیا تھا۔
…٭…
Shahnaz Naima
Zaberdust as usual umaira Ahmad ka koi b novel hikat k baghair nahi hota tasawuf se pur mind blowing tahreer 💗💗💝💖💖💓😘😘😘💕💕💕💞💞💞💞💖💖💝💝💝😘😘😘😘
Ayeisha
Another Masterpiece MashaAllah. Heart touching story ,literally I started crying in the end… (waiting for another journey of Murad and Motiia ..)