Blog

cover-3 (3)

تاجور بے قراری سے حویلی کے برآمدے میں ٹہل رہی تھی۔ چوہدری شجاع اُس سے بھی زیادہ بے چین حویلی کے بڑے دروازے پر کھڑا کھڑا تھک گیا اور کچھ دیر کے لئے واپس اندر آیا۔

”چوہدری صاحب آگیا مراد؟”
چوہدری شجاع کے ساتھ مراد کو نہ دیکھنے کے باوجود تاجور پوچھے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔



”نہیں ابھی تک نہیں آیا۔ مجھے تو فکر ہونے لگی ہے۔ گاڑی تو چلالیتاہے شیدا پر پتہ نہیں آج کیوں اتنی دیر کردی ہے۔ گاؤں کی سڑک بھی بڑی کچی پکی ہے۔”
وہ جیسے خود کو خود ہی تسلیاں دے رہاتھا۔
”اس سے جلدی تو وہ تانگے پر آجایا کرتا تھا چوہدری صاحب! آپ کی گاڑی تو تانگے سے بھی گئی گزری نکلی۔”
تاجور نے چوہدری شجاع کی نئے ماڈل کی کرولا کو بھی رگڑ کر رکھ دیا۔
” دیکھتا ہوں میں یا پھر بھیجتا ہوںکسی کو سٹیشن دیکھ کر تو آئے۔ کہیں ٹرین کو تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگیا۔”
چوہدری شجاع کو اچانک فکرہونے لگی اور اِس سے پہلے کہ وہ کچھ اورکہتا، باہر ہارن کی آواز آنے لگی تھی۔ تاجو ر کا چہرہ کِھل اُٹھا۔ چوہدری شجاع باہر کی طرف لپکا تھا۔ تاجور وہیںکھڑی کھڑی ماہ نور کو آوازدے کر بُلانے لگی۔
مراد ٹھیک نہیں تھا۔یہ احساس چوہدری شجاع کو مراد کو گاڑی سے نکلتے دیکھ کر ہی ہوگیا تھا۔ اُس کے چہرے پر کچھ تھا جس نے چوہدری شجاع کو عجیب سے انداز میں ہولایا تھا۔لپکتے ہوئے اُس نے مراد کو سینے سے لگایا تھا۔
”آگیا میرا پتر!تجھے دیکھنے کو آنکھیں ترس گئی تھیں۔”
چوہدری شجاع نے اُسے تھپکا تھا اور اُسے تھپکتے ہوئے اُسے مراد کا وجود لرزتا محسوس ہوا۔ وہ باپ کے سینے سے لپٹا ہوا یکدم رونے لگا تھا۔ اندر سامان لے کر جاتے ہوئے ملازموں نے اُسے گھر آنے کی خوشی سمجھ کر ان آنسوؤں کونظر انداز کیا تھا مگر چوہدری شجاع باپ تھا، اُس نے مراد کو پالا تھا وہ اِ ن سسکیوں میںچھپی آہوں کو سن پارہا تھا۔
”کیا ہوا مراد تو ٹھیک تو ہے پتر؟”
اُس نے اُسے اپنے سے الگ کرتے ہوئے کہا۔
”ابّا میں موتیا سے مل کر آیا ہوں۔ ظلم کیا ہے آپ دونوں نے۔ کوئی کسی جیتے جاگتے انسان کے ساتھ یہ کیسے کرسکتاہے؟”
وہ اب چوہدری شجاع کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پوچھ رہا تھا۔
”تجھے کسی نے غلط بتایا ہے مراد!”
چوہدری شجاع نے جیسے تاجور پر پردہ ڈالنا چاہا۔
”مجھے کسی نے کچھ غلط نہیں بتایا ابّا۔ مجھے اُس نے سب کچھ سچ سچ بتادیا ہے جس کو استعمال کر کے میری اپنی ماں نے میری نظروں میں موتیا کو بدکردار ثابت کیا تھا۔”
چوہدری شجاع کچھ نہیں سمجھا تھا۔
” تو کیا کہہ رہاہے مراد؟ تیری ماں کیوں کرے گی ایسی سازش؟”
اُس نے بیوی کا دفاع کرنے کی کوشش کی تھی۔



” انہوں نے کی ہے سازش۔ اگر آپ اس میں شریک نہیں ہیں تو جاکر پوچھیں اُن سے۔ اُنہوں نے اُس رات بتو ل کو کہہ کر اُس کے منگیتر اور موتیا کو کنویں پر اکٹھا کیوں کیا تھا اور پھر مجھے جگا کر اُن دونوں کو اکٹھا دیکھنے کیوں بھیجا تھا؟”
وہ اب قمیص کی آستین سے اپنے آنسو پونچھنے لگا تھا۔ چوہدری شجاع کو کوئی جواب نہیں سوجھا تھا۔ وہ تاجور کی طرفدار ی کرتے کرتے تھک گیا تھا۔ اُس پر پردہ ڈالتے ڈالتے بھی تھک گیا تھا۔ وہ خامیوں اور عیبوں پر پردہ ڈال سکتا تھا پر اُس کے گناہوں پر کیسے پردہ ڈال سکتا تھا۔ وہ تو اللہ اور بندے کا معاملہ تھا۔
مراد رُکے بغیر اندر آیا تھا اور اُس نے تاجور اور تاجور کے پیچھے کھڑی ماہ نور کو بہ یک وقت دیکھا تھا۔ تاجور بازو پھیلائے آگے بڑھی تھی پر مراد اُس کے بازوؤں میں آنے کے بجائے چند قدم پیچھے ہٹ گیا تھا۔ تاجور کو جیسے ٹھوکر لگی اور وہ رُک گئی، وہ اُسے جس طرح دیکھ رہا تھا اُس نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ تاجور اُس سے نظریں نہیں ملاسکی۔ اُس کی آنکھوں میں عجیب وحشت تھی۔ تاجور نے عقب میں آتے چوہدری شجاع کو دیکھا۔ اُس کی آنکھیں بھی اتنی ہی کٹھور تھیں۔
”میں تیرا انتظار کررہی تھی۔ تو کدھر رہ گیا تھا؟”
تاجور نے جیسے اپنے ان احساسات کو وہم سمجھنے کی کوشش کی تھی۔
”میں اُس جہنم سے ہوکرآیا ہوں جس میں آپ نے موتیا اور اس کے گھر والوں کو پھینکا تھا امّی!”
اُس کے جملے نے تاجور کو کسی رسّی سے باندھ دیا۔ وہم کبھی کبھی بلاؤں میں بدل جاتے ہیں۔ تاجور کو بھی اس لمحے ایسا ہی لگا تھا ۔و ہ اتنے مہینے بعد آکر اُس کے سامنے کھڑا ہوا تھا اور ماں کے بجائے موتیا کی بات کررہا تھا۔ ایک بار پھر موتیا! ایک بار پھر وہی۔
” یوں مت دیکھ مجھے مراد! ماں ہوں میں تیری۔”
تاجور تڑپی تھی۔ اُس کی آنکھیں برچھی بن کر اُسے کاٹ رہی تھیں۔
” اس ہی لئے تو دیکھ رہا ہوں آخر ماں ہوکر اتنا زہر کیسے اکٹھا کرلیا آپ نے اپنے اندر۔”
مراد نے کہا تھا۔ تاجور کو اپنے عقب میں کھڑی ماہ نور کے سامنے عجیب سی ہتک محسوس ہوئی جو اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کررہی تھی۔
” میں نے جو بھی کیا، تیری اور اس خاندان کی بھلائی کے لئے کیا۔”
تاجور نے لمحے لگائے تھے یہ فیصلہ کرنے میںکہ وہ کسی بات سے اب نہیں مکرے گی، کیونکہ اُن کو جو پتہ چلنا تھا چل چکا تھا۔
”کسی کو زندہ درگور کر کے کسی کو پھانسی پر چڑھادینے کو آپ بھلائی کہتی ہیں؟”
مراد نے بے حد طیش میں ماں سے کہا تھا۔ تاجور کی ڈھٹائی اور خودغرضی اُس کے بیٹے کو برہم کررہی تھی۔ کہیں نہ کہیں اُسے یہ توقع تھی کہ ماں شرمسار ہوجائے گی یہ سب کچھ سامنے آجانے پر، لیکن وہ تاجور کو نہیں جانتا تھا۔
”اتنی اونچی آواز میں بات نہ کر مجھ سے مراد! تو حویلی کے نوکروں کے سامنے میرا تماشا بنارہاہے۔”
تاجور کو اُس کے لب و لہجہ سے اب ہتک کا احساس ہونے لگا تھا۔
”آپ نے پورے گاؤں کے سامنے موتیا اور اُس کے ماںباپ کا تماشا بنایا، تب آپ کو احساس نہیں ہوا تھا کہ اُن کی بھی عزت تھی۔”
مراد نے آواز نیچی کئے بغیر کہا تھا۔ تاجور نے سُرخ چہرے کے ساتھ شوہر کو دیکھا جس کے تاثرات نے اُسے بتادیا تھا کہ وہ بیٹے کو روکنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
”کیا چاہتاہے تو یہ سب کچھ مجھے کو بتاکر؟ تو چاہتا ہے کہ میں موتیا کے گھرمعافی مانگنے جاؤں؟”
وہ بالآخر برہم اندازمیں اُس سے مخاطب ہوئی تھی۔



” نہیں! اب آپ معافی مانگنے نہیں جائیں گی۔ اب آپ وہاں میری بارات لے کر جائیں گی۔ معافی کا وقت تو کب کا گزرگیا۔”
مراد نے کہا تھا اور تاجور اور ماہ نور پر جیسے بجلی گراتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا۔
”آپ نے سُنا چوہدری صاحب یہ کیا کہہ کر گیا ہے؟میری بھتیجی پر سوکن لائے گا۔”
تاجور چوہدری شجاع پراُلٹ پڑی تھی۔
”پیر صاحب سے اجازت لے کر آیا ہے وہ۔ وہی نکاح پڑھائیں گے موتیا اور اُس کا ۔”
چوہدری شجاع نے بے حد مختصر جواب دیا تھا اور وہ بھی رُکے بغیر وہاں سے چلاگیا تھا۔ تاجور کو جیسے اس کی بات پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اُس نے پلٹ کر جاتے ہوئے شوہر کو بے یقینی سے دیکھا تھا اور پھر برآمدے میں کھڑی زرد ہوتی ہوئی ماہ نور کو جو یوں لگتا تھا کہ اب گری کہ تب گری۔
”پھوپھو دادا ابّو یہ کیسے کرسکتے ہیں؟”
تاجور نے ماہ نور کو کہتے سنا تھا۔



”اس گھر میں تیرے علاوہ کسی کی ڈولی نہیں آئے گی ماہ نور۔ میں دیکھوں گی بابا جان بھی کیسے اُسے یہ کام کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں؟ چوہدریوں کاشملہ اب کمیوں کی ڈوری سے بندھے گا؟”
وہ بے حد رعونت سے کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئی تھی۔
ماہ نور برآمدے کی دیوار کے ساتھ پشت ٹکا کر کھڑی ہوگئی تھی۔ اُس نے آج کے دن کے لئے خاص طور پر جوڑا سلوایا تھا۔ کئی گھنٹے لگاکر خود کو ایک بار پھرسجایا تھا کہ شاید آج اُس کو دیکھ کر وہ موتیا کو بھول جائے، اُس کے بچے اُسے موتیا کو بُھلا دیں۔ پر مراد نے اُسے دیکھا ہی نہیں تھا۔ وہ موتیا کا نام لیتے ہوئے آیا تھا، اور موتیا کا نام لیتے ہوئے ہی چلاگیا تھا۔ اُس کی زندگی میں جیسے ماہ نور تھی ہی نہیں۔
”مجھے پتہ ہوتا پھوپھو کہ مراد کا نام ساتھ لگانے کی خواہش مجھے یہاں لے آئے گی تو میں کبھی مراد کی زندگی میں نہ آتی۔ وہ موتیا کاہوتا یا نہ ہوتا، پر کم از کم میں تو کسی قدر کرنے والے کی ساتھی ہوتی۔ آپ کی ضد نے اُن دونوں کے ساتھ ساتھ مجھے بھی خوار کردیا۔”
وہ جو کچھ وہاں کھڑے کھڑے سوچ رہی تھی، وہ تاجور سے کہنے کی ہمت اُس میں کبھی نہیں آسکتی تھی۔ تاجور نے کون سی سازش کی تھی؟ کیسے موتیا کو مراد سے الگ کیا تھا؟ کیسے اُسے گاؤں میں ذلیل کیا تھا؟ ماہ نور اب بھی ان ساری چیزوں کے مکمل حقائق نہیں جانتی تھی۔ اور وہ جاننا بھی نہیں چاہتی تھی۔ اُس کی زندگی کا گڑھا اتنا گہرا ہوتا جارہا تھا کہ اُسے یہ پروا ہی نہیں تھی کہ کوئی دوسرا کتنے گہرے گڑھے میں جاگرا تھا۔
…٭…

Comments(2)

    • Shahnaz Naima

    • 2 years ago

    Zaberdust as usual umaira Ahmad ka koi b novel hikat k baghair nahi hota tasawuf se pur mind blowing tahreer 💗💗💝💖💖💓😘😘😘💕💕💕💞💞💞💞💖💖💝💝💝😘😘😘😘

    • Ayeisha

    • 2 years ago

    Another Masterpiece MashaAllah. Heart touching story ,literally I started crying in the end… (waiting for another journey of Murad and Motiia ..)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!