وہ رات حویلی پر بڑی بھاری تھی یا شاید یہ کہنا زیادہ آسان تھا کہ تاجور اور ماہ نور پر بھاری تھی۔ مراد تو اُس سے بھی زیادہ مشکل راتیں گزارچکاتھا۔
چوہدری شجاع نے تاجور کو کمرے میں چکر کاٹتے دیکھ کر بھی اُسے مخاطب نہیں کیا تھا۔ وہ اُس کی وجہ سے بیٹے کی نظروں میں چور بن گیا تھا اور دُنیا کی نظروں میں ظالم۔تاجور کو لگا تھا موتیا نے اُس کی بساط اُس وقت اُلٹی تھی جب جیت اُس سے بال برابر دور تھی اور تاجور یہ ہضم نہیں کرپارہی تھی۔اس حویلی میں موتیا کے آنے سے بڑا غم یہ تھا کہ اُس کا اپنا باپ اُس کے بیٹے کا نکاح پڑھوا کر یہ کام کرنے والا تھا۔ تاجور نے خواہش کی تھی گامو کے ساتھ ساتھ موتیا بھی مرجاتی تو یہ سارا مسئلہ ہی ختم ہوجاتا۔ بے چین چلتے چلتے اُسے خیال آیا تھا اور اُس خیال نے اُس کے قدم روک لئے تھے۔
” ہاں موتیا بھی مرجائے تو سارا مسئلہ ہی ختم ہوجائے!”
عجیب اندازمیں اُس نے سوچا تھا ۔یہ کوئی اتنا بڑاکام تو نہیں تھا۔ ہاں یہ کوئی اتنا بڑا کام تو نہیں تھا۔ اُس نے سوئے ہوئے چوہدری شجاع کو دیکھا۔ دور کہیں گاؤں میں کتے بھونک رہے تھے اور حویلی کے اندر تاجور اُن کی آواز بغور سنتے ہوئے جیسے اپنا لائحہ عمل طے کررہی تھی۔
…٭…
Shahnaz Naima
Zaberdust as usual umaira Ahmad ka koi b novel hikat k baghair nahi hota tasawuf se pur mind blowing tahreer 💗💗💝💖💖💓😘😘😘💕💕💕💞💞💞💞💖💖💝💝💝😘😘😘😘
Ayeisha
Another Masterpiece MashaAllah. Heart touching story ,literally I started crying in the end… (waiting for another journey of Murad and Motiia ..)