وہ رات تاجور کی طرح ماہ نور پر بھی بڑی بھاری تھی۔ وہ پچھلے پہر سے شام تک کچھ کھائے پئے بغیر بچوں کو سنبھالتی مراد کا انتظار کرتی رہی جو تاجور سے ہونے والے جھگڑے کے بعد ایک بار پھر باہر چلاگیا تھا اور پھر رات کو دیر سے واپس آیا تھا۔
” کھانا کھائیں گے؟” ماہ نور نے اُس سے پوچھا تھا۔
”نہیں!”
مراد نے جواب دیا اور کپڑے بدلنے چلاگیا تھا۔ماہ نور اُس کی واپسی کا انتظارکرتی رہی۔ جب وہ غسل خانے سے باہر آگیا تو ماہ نور نے اُس سے کہا:
”آپ کے لئے پتہ نہیں کیا کیا بنایا تھا۔ پتہ ہوتا کہ آپ کھانا ہی نہیں کھائیں گے تو میں کچھ بھی نہ بناتی۔”
اُس نے عجیب سے اندازمیں اُس سے کہا تھا۔
” حویلی میں بہت کھانے والے ہیں۔ اور کوئی نہیں تو ملازم کھالیں گے۔”
مراد نے اپنی آستینیں تہہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
”میں نے ملازموں کے لئے تو اتنی محنت نہیں کی تھی۔” ماہ نور نے کہا۔
مراد نے اُسے سر اُٹھا کر دیکھا پھر کچھ بھی کہے بغیر اُس کے قریب صوفہ پر آکر بیٹھ گیا۔
”ماہ نور! میں تم سے کوئی چیز نہیں چھینوں گا۔ میری ساری جائیداد تمہارے بچوں کے نام ہی رہے گی۔ میں موتیا کو اس حویلی میں بھی نہیں رکھوں گا۔ میں تمہیں تمہارے کسی حق سے بھی محروم نہیںرکھوں گا۔ میں جانتا ہوں تم سے ایک بڑی قربانی مانگ رہا ہوں لیکن میرے پاس اِس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔اُس کی اور اُس کے خاندان کی زندگی میری وجہ سے برباد ہوئی ہے۔ میرے علاوہ کوئی اور یہ تباہی نہیں روک سکتا۔”
زندگی میںپہلی بار وہ ماہ نور سے دل کی بات کررہا تھا۔ کسی غم خوار، غم گسار کی طرح وہ اُس کی باتیں سنتے ہوئے اُس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ وہ شخص کس دوراہے پراُسے کھڑا کر کے اُس سے دل کی بات کررہا تھا۔ چند دنوں میں وہ اُس کا ہونے جارہا تھا جس کا وہ ہمیشہ سے تھا اور وہ اپنے دو بیٹوں کے ساتھ اس سے یہ سُن رہی تھی کہ وہ دُنیا اُسے دے کر دل کسی اور کو دے دینا چاہتا تھا اوراُس کا خیال تھا وہ دنیا لے کر راضی ہوجائے گی۔
”موتیا میں ایسا کیا ہے مُراد جو مجھ میں نہیں؟جو انگلینڈ کی کسی اور عورت میں بھی نہیںکہ آپ اُس سے وہاں بے وفائی کرلیتے۔”
اُس نے عجیب سے اندازمیں اُس سے کہا تھا۔
” میںنے اُس سے وفا کی کب ہے کہ بے وفائی کا سوچتا؟ میں تو جھوٹا اور کھوٹا ثابت ہوا پیار کے ہر امتحان میں۔”مراد نے اُسے کہا تھا۔
” یہ سب کچھ اُسے دے دیں۔ یہ ساری جائیداد اُس کے نام لگادیں اور مجھے اپنا آپ دے دیں مراد۔”
وہ بلکی تھی۔ مراد اُسے دیکھتا رہا، پھر اُس نے ماہ نور کو تھپکتے ہوئے اپنے سینے سے لگا لیا۔
”میں ایک کا مجرم ہوں۔ تم بھی گناہ گار سمجھ کر بات کروگی مجھ سے تو میں پریشان رہوں گا۔ تم مجھ سے طلاق چاہوگی ، میں تب بھی تیار ہوں۔ ساتھ رہنا چاہوگی تو بھی بڑی عزت سے رکھوں گا۔”
وہ کہتا گیا۔
”صرف عزت سے۔۔۔ محبت سے نہیں؟”
ماہ نور نے اُس کی بات کاٹی تھی، وہ عجیب سے اندازمیں ہنسا۔
” محبت مجھے کرنی نہیں آئی ماہ نور! آتی تو نہ میں موتیا پر شک کرکے اُس کے کردار پر سوال اُٹھاتا نہ تم کو اپنی زندگی میں لاتا۔”
اُس کی آوازمیں عجیب توڑپھوڑ تھی۔ ایک لمحے کے لئے ماہ نور کا دل چاہا کہ وہ اُسے خوشی خوشی موتیا کو اپنی زندگی میں لے آنے کی اجازت دے دے۔ اُسے کہے کہ وہ لے آئے اُس عورت کو اپنی زندگی میں جس سے کی جانے والی بے وفائی نے اُسے یوں توڑپھوڑ دیاتھا۔ پر وہ تاجور کی بھتیجی تھی۔ اتنی آسانی سے اُسے جھکنا اور ہار مان لینا آتا ہی نہیں تھا۔ وہ جنگ اگر اس کے لئے اُس کی پھو پھو لڑرہی تھیں تو اُسے اُن کے ساتھ کھڑے ہونا تھا، اُسے مراد کو اتنی آسانی سے موتیا کا نہیں ہونے دینا تھا کہ اس کمرے کے علاوہ اُس کے وجو د میں سے بھی موتیا کی خوشبو آنے لگے۔ اُس کے سینے سے لگی ہوئی وہ جیسے یہ فیصلہ کررہی تھی کہ اُسے وہ سب کچھ کرنا تھا جو تاجور چاہتی تھی اور جو مراد کو موتیا کا نہ ہونے دیتا۔اُسے یہ پتہ نہیں تھا کہ وہ ساری عمر اپنے اس فیصلے پر پچھتانے والی تھی۔
…٭…
Shahnaz Naima
Zaberdust as usual umaira Ahmad ka koi b novel hikat k baghair nahi hota tasawuf se pur mind blowing tahreer 💗💗💝💖💖💓😘😘😘💕💕💕💞💞💞💞💖💖💝💝💝😘😘😘😘
Ayeisha
Another Masterpiece MashaAllah. Heart touching story ,literally I started crying in the end… (waiting for another journey of Murad and Motiia ..)