اللہ وسائی کو اپنا گھر دیکھ کر یقین نہیںآرہا تھا۔ مراد نے حویلی کے کچھ ملازم بھیجے تھے جنہوں نے دو دن میں اللہ وسائی کے گھر میں ہونے والی ساری مرمتیں کردی تھیں۔ بیرونی دروازہ مرمت ہونے کے بعد اب نئے سرے سے بند ہونے کے قابل ہوگیا تھا۔ فرش لیپا جاچکا تھا اوردر و دیوار پر سفیدی بھی ہوگئی تھی۔ جو چھوٹی موٹی مرمتیں اور ہونے والی تھیں، وہ بھی ہوچکی تھیں اور اب جیسے وہ گھر شادی والا گھر کہلانے کے قابل ہوگیا تھا۔
مراد اُن ہی مرمتوں کو دیکھنے کے لئے اللہ وسائی کے گھر ایک بار پھر آیا تھا اور اللہ وسائی نے جیسے قربان جانے والے اندازمیںاُس کا استقبال کیا تھا۔ اُسے جیسے پہلی بار صحیح معنوں میں یہ یقین آگیا تھا کہ وہ موتیا کی بارات لے کر آئے گا۔
”ابّا رشتہ مانگنے آئیں گے کل اور ساتھ موتیا کے لئے کچھ کپڑے اور زیور بھی لے کر آئیں گے۔”
مراد نے اللہ وسائی کو اطلاع دی تھی، اللہ وسائی کا چہرہ چمکنے لگا تھا۔
” زیور کپڑے کی تو ضرورت ہی نہیں ہے چھوٹے چوہدری جی، وہ رشتہ مانگنے آجائیں، اتنا ہی کافی ہے۔” اللہ وسائی نے جواباً کہا تھا۔
” وہ آئیں گے اور پورے گاؤں والوں کے سامنے آئیں گے۔”
مراد نے جواباًاُس سے کہا تھا۔
”موتیا کہاں ہے؟” اُس نے اللہ وسائی سے پوچھا تھا۔
” کمرے میں سورہی ہے۔ میں جگاتی ہوں۔” اللہ وسائی نے کہا۔
” نہیں چاچی جگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں بس ایک نظر اُسے دیکھنا چاہتا ہوں پھر چلاجاؤں گا۔”
مراد نے اجازت طلب نظروں سے اللہ وسائی کو دیکھا۔ اللہ وسائی نے سر ہلادیا۔
مراد اُٹھ کر اُس کمرے کی طرف چلاگیا جس طرف اللہ وسائی نے اشارہ کیا تھا۔وہ چارپائی پر کروٹ لئے ہوئے سورہی تھی۔ وہ دبے قدموں اُ س کے پاس چلاگیا۔ اُس کے سرہانے کی طر ف زمین پر پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔ وہ گہری نیند میں تھی اور یہ چہرہ وہ چہرہ ہی نہیں تھا جس پر وہ پہلی نظر میں مرمٹا تھا۔ اُس چہرے پر نیند میں بھی ہزار داستانیں پڑھی اور لکھی جاسکتی تھیں اور اُن میں سے کوئی بھی داستان آنسوؤں کے بغیر نامکمل ہوتی۔
وہ اُس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ اتنا قریب سے اُسے وہ چہرہ پہلی بار دیکھنے کا موقع مل رہا تھا ورنہ اِس سے پہلے تو وہ ہمیشہ اُس کی آنکھوں میں ہی اُلجھ کر رہ جاتا تھا۔وہ آنکھیں اُسے کہیں اور جانے ہی نہیںدیتی تھیں۔اپنی انگلیوں کی نرم پوروںسے اُس نے موتیا کے ماتھے کو چھوا تھا، پھر اُس کے گالوں کر پھر اُس کی ٹھوڑی کو پھر اُن بالوں کو جو اُس کے چہرے کواپنے حصار میں لئے ہوئے تھے۔
وہ گہری نیند میں تھی، اُس کے لمس سے نہیں جاگی تھی۔ اپنی جیب سے مراد نے موتیا کے پھولوں کا ایک ہار نکالا تھا اور بے حد نرمی سے اُس کی کلائی میں لپیٹ دیا۔ پھر اُسی نرمی سے اُس نے اُس کاہاتھ اپنے ہونٹوں اور ماتھے سے لگایا اور اُس کے سینے پر رکھ دیا۔ وہ جتنی خاموشی سے آیا تھا،اسی خاموشی سے چلاگیا تھا اور شاید وہ اُس وقت جاگی تھی جب وہ کمرے کی دہلیز سے نکل رہا تھا۔ ادھ کھلی آنکھوں سے موتیا نے کوئی سایہ دیکھا تھا جو غائب ہوگیا تھا۔ وہ اسی طرح بستر میں لیٹی رہی۔ اُس نے خواب میں دیکھا تھا۔ مراد اُس کے کمرے میں اُس کے پاس آیا تھا اور پھر وہ اُس کے پاس بیٹھا اور اُس کی کلائی میں موتیا کا ہار پہنانے والا تھا، جب اُس کی آنکھ کھل گئی تھی اور کھلی آنکھوں کے ساتھ دروازے کے سائے کے بعد جو پہلی چیز اُس نے دیکھی تھی وہ اپنی کلائی میں بندھا موتیا کا وہ ہار تھا۔ اُس نے لیٹے لیٹے عجیب حیران نظروں سے اُس ہار کو دیکھا تھا۔
کبھی کبھی خواب اور حقیقت یوں جڑجاتے ہیں کہ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ خواب کی زمین کہاں ختم ہوتی ہے او ر حقیقت کی دُنیا کہاں سے شروع۔
اُس نے موتیے کا وہ ہار اپنی ناک کے پاس لاکر اُسے سونگھا، پھر ہاتھوں سے اُس کے پھولوں کو چھوا اور دیکھا۔ وہ پھول موتیا کے تھے اور سفید تھے۔ وہ ہار جو مرادنے اُسے خواب میں پہنانا چاہا تھا، وہ موتیا کے پھولوں کا تھا پر اُن کا رنگ سُرخ تھا۔ خون جیسا سرخ۔
…٭…
Shahnaz Naima
Zaberdust as usual umaira Ahmad ka koi b novel hikat k baghair nahi hota tasawuf se pur mind blowing tahreer 💗💗💝💖💖💓😘😘😘💕💕💕💞💞💞💞💖💖💝💝💝😘😘😘😘
Ayeisha
Another Masterpiece MashaAllah. Heart touching story ,literally I started crying in the end… (waiting for another journey of Murad and Motiia ..)