Blog

Dana-Pani-Ep-5

نیند اُس رات موتیا کو بھی نہیں آئی تھی۔ خوشی کیا خوشی تھی۔ اُس نے جو خواب دیکھا تھا، وہ معجزوں کی طرح سچّا ثابت ہونے لگا تھا۔ اُس نے تو مراد کو صرف چاہا تھا، مانگنے کی جرأت تو وہ کبھی کر ہی نہیں سکی۔ وہ لکیر جو اُس کے اور مراد کے خاندان کے درمیان کھنچی ہوئی تھی،اُسے پھلانگنے کا سوچنا بھی جیسے کُفر تھا موتیا کے لئے۔ ماںباپ نے چیزوں کی چاہ کرنا تو سکھایا تھا اُسے پر کسی چیز کو چھیننا اور چوری کرنا نہیں۔ باقی رہ گیا پیار تو وہ کوئی ویزہ اور لائسنس لے کر نہیں ہوتا نہ اُس کے لئے پاسپورٹ بنتاہے، نہ شناختی کارڈ، نہ انگوٹھا لگتا ہے، نہ دستخط ہوتے ہیں۔ وہ بس ہوجاتاہے اور موتیا کو بھی مراد سے ہوگیا تھا اور اُس پیارمیں نہ کوئی حرص تھی نہ ہوس۔ وہ موتیا کے پھول جیسا سُچا پیار تھا ویساہی دودھیا، ویسا ہی پاک ۔ مزاروں پر لوگ گلاب ڈالتے ہیں، موتیا ہمیشہ ہاتھوں اور گلے میں ہی ڈالا جاتاہے۔ گلاب حُسن کے لئے ہوتا ہے اور موتیا خوشبو میں اُس پر بازی لے جاتاہے۔ پر گامو اور اللہ وسائی کی موتیا حُسن میں گلاب پر بھی سبقت لے گئی تھی۔ وہ نام کی موتیا تھی اور حُسن میں گلاب اور اُس رات بھی گلاب کے حُسن والی موتیازمین پر گھٹنے ٹیکے ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ اُسے اپنی خوشی سے ڈر لگ رہا تھا اور اپنی قسمت پر یقین نہیں آرہا تھا۔ نعمتوں پر ساری عمر اُس نے اپنے ماں باپ کی طرح شکر ہی کیا تھا پر جو نعمت اب اُسے ملنے والی تھی وہ تو اُس کی اوقات، حیثیت، اُس کی جھولی، اُس کی دعا کے لئے اُٹھے ہاتھوں سے بہت اوپر اور آگے کی شے تھی۔ یہ اُسے کیسے مل سکتی تھی اور کیوں مل سکتی تھی۔ اُس نے ایسا کیا ہی کیا تھا کہ وہ ”مراد” پاتی۔ موتیا کو رتّی برابر بھی شائبہ نہیں تھا کہ وہ اُس کے ماں باپ کی نیکیوں کا اجر تھا پر وہ اپنے آپ کو اس اجر کے قابل بھی نہیں سمجھتی تھی۔


وہ اُس کے کوٹھے کی کچی چھت تھی جس پر وہ دو زانو بیٹھی اُس چاند کو دیکھ رہی تھی جو اُس کے اور چوہدری مراد کے چہرے کو ایک ہی چاندنی سے دیکھ رہا تھا اور وہ نور جیسی چاندنی موتیا کے چہرے پر ویسا ہی فسانہ لکھ رہی تھی جیسا اُس وقت سوئے ہوئے مراد کے چہرے پر لکھ رہی تھی اور بالکل اُس ہی وقت اللہ وسائی لکڑی کی سیڑھی پر چڑھتی موتیا کو ڈھونڈتی کوٹھے پر آئی تھی اورآخری سیڑھی پر کھڑی وہ سیڑھی کا سرا پکڑے بس اپنی اُس نور والی بیٹی کے چہرے کو دیکھتی ہی رہ گئی۔ وہ اُس وقت سے اپنی اس اولاد کا چہرہ دیکھ کر سحر زدہ ہوتی آئی تھی جب اُس نے پہلی بار اُسے پیدا ہونے کے بعد دیکھا تھا اور اُس نے پہلی نظر اُس پر ڈالتے ہی اُسے اللہ کی امان میں دیا تھا۔
“میری دھی کا کبھی بال بھی بیکا نہ ہو۔ کبھی کوئی دُکھ درد اُس کے دروازے کیا اُس کی گلی سے بھی نہ گزریں۔ اُس کا دل مومن کادل ہو، اُس کی زبان مرہم کی تاثیر رکھتی ہو۔ اُس کا دل دکُھانے والا غارت، اُس کو رُلانے والا مٹّی ہوجائے۔”
اللہ وسائی نے تتلاتے ہوئے اُس کا ماتھا چوم کر اُسے دعا نہیں دی تھی،جیسے اُس کے گرد اپنی کالی زبان سے حصار کھینچ دیا تھا۔ اور چاند کی چاندنی میں اپنی بیٹی موتیا کا چہرہ دیکھتے ہوئے اللہ وسائی نے ایک بارپھر وہی دہرانا شروع کیا تھا ، جو وہ ہر بار اُس کا چہرہ دیکھنے پر دُہراتی تھی۔ وہی دعائیں، وہی اللہ کی امان اور وہی حصار… وہ کمّی کمین اللہ وسائی اپنی نسل بچانے کے لئے جو کرسکتی تھی، کررہی تھی کاش تاجور اُس کے لفظ سُن لیتی، شاید جھوک جیون کی تاریخ اور مستقبل دونوں اور ہوتے۔


٭…٭…٭

One Comment

    • Vicky Sheikh

    • 1 year ago

    Jesa khajista waly darama me hua tha same wohi scene tha…
    Aisa nhi hona chahye tha
    Murad ki maa ko wo laddu khana chahye tha

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!