Blog

Dana-Pani-Ep-5

نیند میں مراد کو اپنی پشت پر کسی کے نرم ہاتھ کا لمس محسوس ہوا تھا اور گہری نیند میں وہ اس لمس کو شناخت نہیں کرپایا پھر یک دم کسی نے اُسے جھنجھوڑا تھا اور وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا تھا۔ وہ تاجور تھی جو اُس کے پاس بستر پر بیٹھی ہوئی تھی۔
“کیا ہوا امی سب ٹھیک تو ہے۔ “ُس نے نیند میں بھی بڑی تشویش سے ماں سے پوچھا تھا۔
“آدھی رات کو کیوں جگایا ہے اس طرح آپ نے مجھے؟”


“تجھے اس لئے جگایا ہے تاکہ تو وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھے جس پر تو یقین نہیں کرتا۔”
تاجور نے عجیب سے لہجے میں اس سے کہا تھا۔
“کیا دیکھوں؟ کس کے بارے میں بات کررہی ہیں آپ؟”مراد بستر سے اُتر آیا تھا پر ماں کی بات اب بھی سمجھ نہیں پارہا تھا۔
“موتیا سعید سے ملنے کے لئے گئی ہوئی ہے کنویں پر جا اور جاکے دیکھ لے اُس ستی ساوتری کو جس کی پاکبازی کی قسمیں کھا سکتا ہے تو۔”وہ جملہ نہیں سیسہ تھا جو مراد کے کانوں میں تاجور نے اُنڈیلا تھا۔ کئی لمحوں تک تو اُس کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ ماں موتیا کے بارے میں جو کہہ رہی تھی وہ کیسے کہہ رہی تھی اور کیسے کہہ سکتی تھی۔
“آپ ایسی بات مت کریں امی کہ میں ماں کا احترام بھول کر آپ سے بات کرنے لگوں۔”وہ بے حد خفاہوا تھا۔
“وہ کیوں جائے گی آدھی رات کو کنویں پر کسی سے ملنے؟”
“کیوں کا جواب تو اُس سے لینا میرے پاس نہیں ہے میں تو تجھے بس اُس گڑھے کی غلاظت دکھانا چاہ رہی ہوں جس میں تو کودنے کی ضد کررہا ہے۔” تاجور نے اُس کی بات کے جواب میں ترکی بہ ترکی کہا تھا۔ وہ ماں کا چہرہ دیکھتا رہا اُس کی آنکھوں میں جیسے خون اُترنے لگا تھا۔
“ٹھیک ہے جارہا ہوں میں وہاں۔ اگر وہ وہاں کسی کے ساتھ ہوئی تو اُسے مار آؤں گا اور اگر وہ وہاں نہ ملی تو پھر آج کے بعد آپ کا اور میرا رشتہ ختم۔”
اُس نے دیوار پر لٹکی ہوئی دو نالی بندوق اُتارلی تھی اور تاجور اُس کی بات پر ساکت ہوگئی تھی۔ وہ مرنے مارنے کی بات کررہا تھا اور وہ اُسے وہاں کسی کو مارنے کے لئے تو نہیں بھیجنا چاہتی تھی۔
“تو نہیں مارے گا موتیا کو سنا تو نے ۔” تاجور نے باہر جاتے ہوئے مراد کے ہاتھوں سے بندوق چھیننے کی کوشش کی تھی۔
“اس کا فیصلہ میں کروں گا آپ نہیں۔ آپ نے جو کرنا تھا کرلیا۔ اب جو میں نے کرنا ہے وہ میں کروں گا۔”
اُس نے ماں کو دھکیل کر پیچھے ہٹایا تھا اور کمرے سے نکل گیا تھا۔ تاجور بھاگتی ہوئی باہر نکلی اور اُس نے صحن میں سوئے ہوئے ملازموں کو آوازیں دینا شروع کردیں۔ مراد اُس کے اس سارے شور شرابے کے درمیان تیز قدموں سے حویلی کے صحن کو پار کر گیا تھا۔
“چھوٹے چوہدری کے پیچھے جاؤ۔ اُنہیں کسی کو مارنے نہ دینا۔ بندوق چھین لینا اُن سے۔”
تاجور نے چلاتے ہوئے اپنے ملازموں کو کہا تھا۔ جو نیند سے اُٹھ کر اُس کے اس شوروغل کو نہ سمجھنے کے باوجود اپنے جوتے پہنتے حویلی کے بیرونی دروازے کی طرف بھاگتے گئے تھے جہاں سے اب مراد اپنے گھوڑے کو دوڑاتا ہوا نکل گیا تھا۔
“سن طیفے گھوڑا بھگاتا کنویں پر جا۔چوہدری نے کسی کو مار بھی دیا تو الزام تو نے لینا ہے اپنے سر سمجھا۔” تاجور نے چوہدری شجاع کے ایک انتہائی وفادار ملازم کو کہا تھا اور اُس نے چوں چراں کئے بغیر اُس کی بات پر سرجھکایا تھا۔ گھوڑے دوڑاتے وہ چار پانچ ملازم بھی چوہدری مراد کے پیچھے کنویں کی طرف چلے گئے تھے۔


٭…٭…٭

One Comment

    • Vicky Sheikh

    • 1 year ago

    Jesa khajista waly darama me hua tha same wohi scene tha…
    Aisa nhi hona chahye tha
    Murad ki maa ko wo laddu khana chahye tha

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!