Blog

Dana-Pani-Ep-5

مراد گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے کنویں کے گرد گھومتا ہوا دوسری طرف گیا تھا اور وہاں پڑا موتیا کا دوپٹہ اُس نے دیکھا تھا۔ وہ اُس دوپٹے کو نہیں پہچانتا تھا جو ہوا سے زمین پر سرکتابل کھاتا جارہا تھا مگر اُس نے اُس چوڑی کو پہلی نظر میں ہی پہچان لیا تھا جو چاند کی روشنی میں سونے کی طرح چمک رہی تھی اور پھر اُس نے چوڑیوں کی وہ قطار دیکھی تھی جو کچی پگڈنڈی پر برگد کے اُس جھنڈ کی طرف جارہی تھی۔ گھوڑے پر بیٹھا مراد بُت کی طرح ساکت تھا۔ اُس کا ذہن اُس گرے ہوئے دوپٹے اور بکھری ہوئی چوڑیوں کی جو منظر کشی کررہا تھا، وہ اُسے دیکھنے کے بجائے اندھا ہونا چاہتاتھا۔


“جا جاکے دیکھ لے اپنی موتیا اور اُس کے کرتوتوں کو تاکہ تیری آنکھیں ہمیشہ کے لئے کھل جائیں!”
تاجور نے اُس سے کہا تھا۔ مراد گھوڑا روک کر اُس سے اُتر آیا تھا۔ اُس نے کندھے پر لٹکی بندوق بھی اُتار لی تھی۔ موتیا کی چوڑی اُس کے پیر کے نیچے آکر ٹوٹی تھی۔ وہ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اُس کانچ کا ایک ایک ذرّہ اپنی پوروں پر اُٹھا لیتا پروہ کوئی اور وقت نہیں تھا۔ وہ بُرا وقت تھا اور بُرے وقت میں کانچ کاٹتا ہے ،چومتا نہیں۔ ایک…دو…تین… پتہ نہیں کتنی چوڑیا ں اُس کے پیروں کے نیچے آکر ٹوٹی تھیں پر مراد کو ہوش ہی نہیں تھا۔ موتیا چوڑی ہوتی تو وہ آج یہاں اُسے بھی اِس ہی طرح کچل کر گزرجاتا۔ وہ جس غیض و غضب میں تھااُس میں لوگ صرف قتل و غارت کرتے ہیں اور وہ بھی وہاں وہی کرنے آیا تھا۔ اُس کا محبوب بے وفا اور بے حیا نکلا تھا اور دغاباز بھی۔
مراد کا گھوڑا پگڈنڈی پر اُس کے پیچھے لٹکتی ہوئی رکابوں کے ساتھ چل پڑا تھا یوںجیسے اُس کو روکنا چاہتا ہو۔ جانور کی بھی ایک چھٹی حس ہوتی ہے، پر مراد نے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔ وہ بندوق لئے جھنڈ میں گھسا تھا اور اُس نے وہاں کسی کو نہیں دیکھا۔ بندوق تانے وہ برگد کے درخت کی طرف گیا تھا اور اُس نے درخت کے پھیلے ہوئے تنے کے ساتھ چپکے مرد اور عورت کو دیکھ لیا تھا جو دونوں اندھیرے میں تھے۔
“باہر نکلو!”
مراد نے دھاڑ کربندوق سیدھی کرتے ہوئے کہا تھا اور اُس کی آواز سنتے ہی موتیانے بے اختیار کہا۔
“مراد! یہ تو مراد ہے!”
اور اُس کی آواز نے مراد کو چھلنی کیا تھا یا خنجر سے کاٹا تھا۔اُسے اندازہ نہیں ہوا تھا۔ بس وہ ایک اور لفظ نہیں بول سکا تھا۔
موتیا اور سعید دونوں چلتے ہوئے اُس کھلی جگہ آکر کھڑے ہوگئے تھے جہاں چاند کی روشنی آرہی تھی اور جہاں مراد بھی تھا پر سعید نے کچھ بھی کہے بغیر یک دم وہاں سے دوڑ لگا دی تھی۔ اُس نے مراد کو خود پر بندوق تانتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اِس سے پہلے کہ مراد فائر کرتا، سعید درختوں کی آڑ میں غائب ہوچکا تھا۔
وہاں اب بس وہی دونوں تھے…موتیا اور مراد…عاشق اور محبوب… اور چاند کی چاندنی تھی جس میں ملنے کی لوگ دعائیں کرتے تھے۔
مراد نے بندوق سیدھی کی تھی اور موتیا کی گردن پر شہ رگ کی جگہ پر رکھ دی۔ موتیا کا سانس رُک گیا۔ اُس نے بے یقینی سے مراد کو دیکھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے تھے اور ایک دوسرے کی آنکھیں پڑ ھ رہے تھے۔پھر موتیا نے مراد کو بندوق کا لبلبہ دباتے ہوئے دیکھا پھر اُس نے مراد کی آواز سُنی وہ موت دینے سے پہلے اُس کے حُسن کے قصیدے پڑھ رہا تھا۔
اُس کے نین غزالی دلبر
اُس کے گال گلابی
اُس کے روپ پہ ساون برسے
بہہ جائے مر مر کے
اُس کا حسن کہانی جیسا
کاغذ کتنے بھردے
اُس کی مُشک بہاروں جیسی
اُس کی چپ میں چھاؤں
وہ حسن پری
وہ روپ متی
وہ میرے جل کی ناؤ
اُسے دھوپ چھوئے تو ہیرا
اُسے مے چھوئے تو پانی
اُس کے نین غزالی دلبر
او میرے دلبر جانی



One Comment

    • Vicky Sheikh

    • 1 year ago

    Jesa khajista waly darama me hua tha same wohi scene tha…
    Aisa nhi hona chahye tha
    Murad ki maa ko wo laddu khana chahye tha

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!