Blog

Dana-Pani-Ep-5



“تُو اتنی رات کو کہاں جارہی ہے موتیا؟”
اللہ وسائی دروازے کے کھٹکے پر اُٹھی تھی اور اُس نے موتیا کو باہر کا دروازہ کھولتے دیکھا۔ وہ یک دم اُس کی آواز پر کچھ ڈرگئی تھی۔
“اماں آپ نے مجھے ڈرادیا!”
موتیا نے ہاتھ سینے پر رکھ کر جیسے اپنی سانس بحال کی تھی۔
“بس یہیں تک جارہی ہوں بتول کے ساتھ، ابھی آجاتی ہوں۔”
اُس نے ماں سے گول مول سی بات کی تھی۔
“آدھی رات کا وقت ہے موتیا اور تو کیوں اس وقت بتول کے ساتھ جارہی ہے؟ کہاں ہے بتول میں اُس سے بھی پوچھوں۔”
اللہ وسائی نے کچھ ناراض ہوکر دہلیز کی طرف جاتے ہوئے کہا تھا۔
“ماں وہ نویدہ کی طبعیت خراب ہے اُس ہی کو دیکھنے کے لئے جانا ہے۔آ پ کو بتایا تو تھا میں نے۔ بتول ابھی آئی نہیں،بس آتی ہی ہوگی۔”
موتیا نے جلدی سے ماں سے بہانہ بنایا تھا۔
“تو میں چلتی ہوں نا تیرے ساتھ۔”
اللہ وسائی کو یاد آگیا کہ شکوراں کی ہمسائی کی طبعیت دو دن سے خراب تھی اور وہ موتیا سے بخار چیک کروانے آئی تھی۔
“ارے خالہ آپ کیا اتنی رات میں نکلیں گی؟ بس آجاتی ہیں ہم دونوں ابھی کے ابھی۔”
یہ بتول تھی جو بالکل اُس وقت پہنچی تھی اور اُس نے اللہ وسائی اور موتیا کے درمیان ہونے والی بات چیت دروازے کے باہر ہی سُن لی تھی۔ بتول کو دیکھ کر اللہ وسائی کو جیسے تسلّی ہوئی تھی۔
“مایوں بٹھانا ہے اسے میں نے بتول اور یہ ہے کہ اِس کا پاؤں ہی نہیں ٹکتا گھر میں۔ارے دن کتنے رہ گئے ہیں اب اور دلہن پر تو سو نظریں اور لاکھ بلائیں لگی ہوتی ہیں۔ اس لئے کہتی ہوں کہ گھر پر بیٹھے۔”
اللہ وسائی نے بتول سے کہا اور بتول نے کچھ عجیب سے اندازمیں کہا۔
“موتیا تو ساری عمر نظروں میں رہی ہے اور ہر بلا سے بچتی رہی ہے۔ اُس اب کیا ہونا ہے خالہ ؟ دشمن کا ہی منہ کالا ہوگا۔”
“آمین!”
اللہ وسائی نے بے اختیار اُس کی بات پر کہا اور بتول کے جیسے کلیجے پر ہاتھ پڑا۔ وہ اپنے اُس جملے پر جیسے خود ہی پچھتائی تھی جس پر اللہ وسائی نے آمین کہا تھا۔
“اتنی لمبی باتیں کرنے بیٹھ گئی ہیں آپ دونوں ! اماں میں جارہی ہوں اور ابا پوچھے تو کچھ مت کہنا۔”
موتیا نے درمیا ن میں مداخلت کرتے وقت بتول کا ہاتھ پکڑا تھا اور کھینچتے ہوئے اُسے لے کر گئی تھی۔
” سعید آرہا ہے نا؟”
موتیا نے گلی میں آتے ہی بتول سے پوچھا تھا۔
“ہاں کہا تو ہے اُس نے… تو بس اُس کوبتادینا موتیا کہ تو مراد سے پیار کرتی ہے اور اُس کے علاوہ کسی سے شادی نہیں کرے گی۔ اُس کا باپ پتہ نہیں کیا آس لگا کر بیٹھا ہے اور مجھے تو لگتاہے سعید بھی شادی پر خوشی خوشی تیار ہے۔”
بتول نے ساتھ چلتے ہوئے اُس سے کہا۔ موتیا نے اُس کے کندھے پر ہاتھ مارا۔
“ایسے کیسے تیار ہوسکتاہے وہ؟ تجھے پتہ توہے انکار کردیاہے میرے ابا اور میں نے اور خود چاچا بھی تو کتنی باتیں سنا کر گیا ہے مجھے… پھر کیوں کریں گے مجھ سے شادی؟”
موتیا جیسے حیران ہوئی تھی۔



“ہاں پر چاچا اور اُس کی اولاد کا کوئی دین ایمان نہیں… پر دیکھ موتیا! سعید سے میٹھی بات کرنا، کڑوا مت بولنا یہ نہ ہو کہ وہ مجھ سے شادی سے ہی مُکر جائے کہ میں نے سہیلی کے ہاتھوں بے عزت کروایاہے۔”
بتول نے ایک ہی سانس میں پینترا بدلتے ہوئے کہا۔
“میں کیوں کڑوابولوں گی اُس سے؟ میٹھا بولنے ہی جارہی ہوں اُس سے… تیرے لئے منانا ہے اُسے… یاد ہے مجھے… اور تو بھی بھروسہ کر اُس پر اتنا کھوٹا نہیںہے وہ جتنا تو سمجھتی ہے۔”
اُس نے بتول کو تسلی دی تھی۔
“ہاں پر اتنا سچا بھی تو نہیں ہے جتنا مراد ہے!”
بتول نے عجیب سے اندازمیں کہا تھا۔ موتیا ہنسی۔
“نظر لگائے گی اب کیا تو؟”
اس بات بتول نے یہ نہیں کہا تھا کہ نظرلگے تیرے دشمنوں کو۔ وہ چُپ رہی تھی۔
وہ آدھی رات کا وقت تھا اور وہ کنویں کی طرف بڑ ھ رہی تھیں جس کے پیچھے درختوں میں سعید نے آنا تھا اور یہ صرف بتول جانتی تھی کہ وہاں صرف سعید نے نہیں آنا تھا، اُس رات کسی اور نے بھی وہاں پر آنا تھا۔
“سُن بتول اگر آدھی رات کو رستے میں کوئی بھوت مل گیا تو…؟ کہتے ہیں رات کو درختوں کے بھوت پریت نیچے اُتر آتے ہیں۔”
موتیا نے ساتھ چلتے ہوئے یک دم اُس سے کہا ۔ وہ خوفزدہ نہیں تھی پر متجسس تھی۔
“تو کیا ہوا؟ تجھ پر عاشق ہوجائے گا فوراً جیسے انسان ہوجاتے ہیں۔”
بتول نے یک دم کہا تھا۔
“اب ایسی بھی کوئی بات نہیں! کیا پتہ مجھ پر نہیں تجھ پر عاشق ہوجائے، پھر کیا ہوگا؟”
موتیا نے اُسے جواباً چھیڑا تھا۔
“مجھ پر تو سعید عاشق نہیں، بھوت کیسے ہوگا؟”
بتول نے عجیب سی تلخی کے ساتھ ہنس کر کہا تھا۔
“اچھا چل مان لے ہوگیا عاشق پھر؟”
موتیا نے اصرار کیا۔
“تو بس پھر میں اُسے کہوں گی چوہدری مراد بن کر آکر مجھے بیاہ کر لے جائے۔”
بتول نے بے ساختہ کہا تھا اور موتیا نے بے ساختہ قہقہہ لگایا۔
“یہ تو واقعی چڑیلوں والی بات کردی تو نے میرا ہے مراد کسی اور کا نہیں ہوسکتا۔ کوئی جن بھوت چاہے تو بھی۔”
موتیا نے عجیب گمان سے کہا تھا۔
” قسمت کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔”
بتول نے عجیب سے اندازمیں کہا تھا۔ موتیا نے حیران ہوکر ساتھ چلتے ہوئے اُس کا چہرہ دیکھا تھا۔
“ایسے کیوں کہہ رہی ہے تو بتول… ؟ تجھے شک ہے کہ مراد میرا نہیں ہوگا؟”
بتول نے ہنس کر اُس کا ہاتھ پکڑا۔
“لے بھلا میں کیوں کروں گی کسی پر شک…تیرا ہی ہے مراد اور تیرا ہی رہے گا۔”
موتیا نے سہیلی کی آواز میں خلوص کو کھوجنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ بتول پر اندھا اعتماد کرتی تھی اور انسان دوستوں پر بھی اندھا اعتبار نہ کرے تو کیا دشمنوں پر کرے۔


٭…٭…٭

One Comment

    • Vicky Sheikh

    • 1 year ago

    Jesa khajista waly darama me hua tha same wohi scene tha…
    Aisa nhi hona chahye tha
    Murad ki maa ko wo laddu khana chahye tha

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!