Blog

Dana-Pani-Ep-5

پیر ابراہیم نے گھوڑا بھگاتے ہوئے مراد کو اُس وقت دیکھا تھا جب وہ اپنے باغ میں نماز کے بعد پھررہے تھے۔ انہوں نے اُسے دور سے دیکھا اور پھر پہچان لیا تھا اور مراد نے بھی اُنہیں دور سے ہی دیکھ لیا تھا۔



“تم لوگ جاؤ۔”
پیر ابراہیم نے اپنے ساتھ پھرتے ہو ئے ملازمین سے کہا تھا۔ وہ بڑی فرمانبردادی کے ساتھ وہاں سے چلے گئے تھے۔ تب تک مراد پاس پہنچ گیا تھا۔ نانا کے پاس پہنچ کر گھوڑے سے اُترنے کے بجائے وہ کچھ دور ہی گھوڑے سے اُتر آیا تھا۔ گھوڑے کی باگ کو ایک درخت کے تنے کے ساتھ باندھتے ہوئے مراد مسکراتا ہوا پیر ابراہیم کی طرف آیا تھا اور اُن سے لپٹ گیا تھا ۔پیر ابراہیم مسکراتے ہوئے اُسے تھپکتے رہے۔
“ماں باپ گئے ہیں کیا؟”
وہ الگ ہوا تو انہوں نے پوچھا۔ مراد بے اختیار ہنسا۔
“آپ کو کیسے پتہ چلا کہ یہ خبر دینے آیا ہوںآپ کو؟”
پیرا براہیم ہنسے تھے۔
“تمہارے چہرے کی چمک سے… تمہارے بازوؤں کی گرفت سے… اتنی گرم جوشی سے تو تم لندن سے آکر بھی نہیں ملے تھے مجھ سے۔”
مراد ایک بار پھر ہنس پڑا۔
“ابّا مان گئے ہیں…امّی نہیں مان رہیں۔ پر ابّا نے تاریخ دے دی ہے موتیا کے ماں باپ کو۔”
اُس نے پیر ابراہیم سے کہا تھا۔ وہ مسکراتے مسکراتے سنجیدہ ہوئے۔
“تاجور سے میں بات کروں گا، اُسے سمجھاؤںگا عقل سے کام لے۔”
“انہیں بس آپ ہی سمجھاسکتے ہیں نانا جان، میں ہار گیا۔”
مراد نے جیسے اپنی بے بسی کا اظہار کیا تھا۔
“ماں کی آنکھوں میں آنسو دے کر موتیا کے گھر بارات لے کر نہیں جانا چاہتا میں… جا ہی نہیں سکتا اور ماں کے لئے موتیا کو چھوڑ بھی نہیں سکتا۔ آپ اُنہیں سمجھائیں نانا، میرے لئے یہ سب کچھ اتنا مشکل نہ بنائیں۔”وہ پیر ابراہیم سے کہہ رہا تھا۔
“میں سمجھالوں گا اور میں آؤں گا تو وہ خود ہی چلی گی ساتھ بارات میں۔ تم اکلوتے بیٹے ہو، وہ جان چھڑکتی ہے تم پر۔ کیسے ممکن ہے کہ تمہاری بارات اُس کے بغیر جائے؟”
پیر ابراہیم نے اُس کا کندھا تھپکا تھا۔ مرادکے چہرے پر عجیب سا اطمینان آیا تھا۔ یوں جیسے نانا سب سنبھال لیں گے پر اُس کو بھی بلا کا یقین ہو۔
“نیک خون ہے مراد…دغا نہ کرنا بڑا بھاری پڑے گا۔”
پیر ابراہیم نے یکدم تسبیح کے دانے پھیرتے ہوئے اُس سے کہا تھا۔ مراد ٹھٹکا۔ ایک لمحہ کے لئے وہ اُن کی بات نہیں سمجھا اور پھر اُسے سمجھ آگئی اُن کا اشارہ موتیا کی طرف تھا۔
“نانا جان میں بھی نیک خون ہوں… دغا کرنا ہوتا تو یہ ساری جنگ کیوں لڑتا؟ میرے دل میں اب اُس کے علاوہ کسی دوسرے نے آناہی نہیں۔”
اُس نے پیر ابراہم کو جیسے تسلّی دی تھی۔
“صرف کسی دوسری کی وجہ سے دغا نہیں ہوتا مراد… شک اور وہم ، بے وفائی سے بڑی جدائی ڈالتے ہیں۔”
پیر ابراہیم کے لہجے میں عجیب سا تاثر تھا۔ مراد حیران ہوا۔
“نانا جان میں اور موتیا پر شک کروں گا؟”
وہ اُن کی بات پرہنسا۔
“میں شک کروں تو کافر، وہم کروں تو پاگل۔”
پیر ابراہیم نے بے اختیار اُس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا۔
“بڑا بول نہیں مراد… یہ دل ہے اُس کا کچھ پتہ نہیں… یہ دماغ ہے ، یہ اُس سے بھی کمزور۔”
اُنہوں نے اُس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اُسے ٹھوکا پھر اُس کے سر کو تھپکا۔
“کوئی وقت لگتاہے اُن کو بدلنے میں۔”
مراد اس بار اُن سے بحث نہیں کرسکا۔ وہ اُن کی بات سُنتا جارہاتھا۔
“بس جاؤ اب واپس جاتے جاتے شام ہوجانی ہے تمہیں۔”


اُنہوں نے اُس سے کہا تھا۔ وہ ایک بار پھر اُس ہی گرم جوشی سے اُن سے گلے ملا تھا اور پھر اپنے گھوڑے کی طرف بڑھ گیا ۔ پیر ابراہیم نے اُسے گھوڑے پر سوار ہوتے اور گھوڑا بھگاتے دیکھا تھا اور وہ اُسے تب تک دیکھتے رہے جب تک و ہ اُن کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوگیا تھا۔ ایک عجیب سی بے چینی تھی جو اُنہیںہوئی تھی اور اس بے چینی کی کوئی وجہ اُنہیں سمجھ نہیں آئی تھی۔

٭…٭…٭

One Comment

    • Vicky Sheikh

    • 1 year ago

    Jesa khajista waly darama me hua tha same wohi scene tha…
    Aisa nhi hona chahye tha
    Murad ki maa ko wo laddu khana chahye tha

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!