Blog

Dana-Pani-Ep-5

وہ گھوڑادوڑاتا عجیب جنون کے عالم میں کنویں کی طرف جارہا تھا… اور گھوڑا دوڑاتے ہوئے پہلی بار دور سے کنواں نظر آنے پر مراد نے سوچا تھا وہ وہاںکیا دیکھنے جارہا تھا اور کیوں جارہا تھا؟اُسے اپنے آپ پر شرم آنے لگی اُس کا پیار واقعی سوہنی کے گھڑے سے بھی کچّا نکلا تھا۔ بس ماں کے ایک جملے، ایک الزام کی مار نکلا۔ گھوڑا دوڑاتے دوڑاتے اُس نے گھوڑے کی رفتار کنویں سے بہت دور ہی آہستہ کرلی اور اُس کا دل چاہ وہیں سے واپس مُڑ جائے۔ جو وہ کرنے جارہا تھا ،وہ پیار کی توہین تھا۔ پیار کی لاج پر لکیر جیسا تھا۔پیار تفتیش اور تحقیق کہاں کرتا پھرتاہے۔ تکڑی( ترازو) میں کہاں تولتاہے محبوب کے کردار کو… چھلنی میں کہاں چھاننے بیٹھتا ہے اُس کو… پر وہ یہ سب کرنے چل پڑا تھا۔نہ ایچیسن کی تعلیم اُسے روک پائی تھی ، نہ کنگز کالج اُس کے پاؤں کی زنجیر بنا تھا۔ نہ ہی اُس کے اپنے دل نے اُس کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے کہ دیکھ مراد یہ نہ کر… یوں نہیں ہوتا پیار میں… اور اب کنویں کے راستے کی پگڈنڈی پر گھوڑا کھڑا کئے اور اپنے کندھے پر بندوق رکھے مراد اُلجھا ہوا تھا۔ واپس جائے تو ماں کے سوالوں کا کیا جواب دے گا؟ آگے جائے تو اپنے آپ کو دوبارہ شیشے میں کیسے دیکھے گا؟ اُس کی موتیا پاک تھی ، یہ وہ آنکھیں بند کر کے بھی کہہ سکتا تھا تو پھر کیوں آگیا تھا وہ کسی کے بہکاوے میں؟ کیوں اُس نے سوچ لیا تھا کہ موتی کو کوئی اُس سے بڑھ کر بھی لگ سکتا ہے کہ و ہ اس طرح آدھی رات کو اُس سے ملنے چل پڑے اور آدھی رات کو تو کبھی اُس نے موتیا کوکہیں نہیں بلایا پھر کوئی دوسرا کیسے… وہ بھی وہ سعید… مراد کو پہلی بار احساس ہوا کہ بات یہی تھی، وہ اپنا حریف کھوجنے آیا تھا یا اپنا رقیب… موتیا کے کردار کی شہادت ڈھونڈنے نہیں آیا تھا پر پھر بھی آگیا تھا اور آگیا تھا تو شرم سے پانی پانی ہورہا تھا۔ اُس نے گھوڑے کی لگام کھینچ کراُس کا منہ موڑا اور اس سے پہلے کہ وہ واپسی کے لئے ایڑلگاتا،اُس نے کسی کی ہنسی کی گونج فضا میں سُنی تھی اور وہ بُت کی طرح ساکت ہوا تھا۔ وہ اندھا ہوتا تب بھی موتیا کی ہنسی کی بازگشت پہچان لیتا۔ برف کی طرح سرد وجود کے ساتھ اُس نے گردن موڑ کر اُس سمت دیکھا جہاں سے وہ ہنسی کی آواز آئی تھی۔ کنویں کے پار برگد کا اک جھنڈ اور وہ اُس جھنڈسے جیسے اُس ہنسی کے دوبارہ نہ اُبھرنے کی دعا کررہا تھا۔ دُعا قبول نہیں ہوئی تھی۔ وہ ہنسی پھر گونجی تھی اور اِس بار کھلکھلاہٹ کی طرح آئی تھی۔ ماؤف ذہن کے ساتھ مراد نے گھوڑا واپس پلٹایا تھا۔


اُس کی ہنسی ہے جھانجھر جیسی
موتی اُس کے دانت
اُس کا بدن ہے رات کی رانی
چمپا اُس کا ساتھ
وہ گزرے تو سورج دیکھے
بیٹھے تو پھر چندا
وہ بھول بھلّیوں جیسی دلبر
میں ہوں بھولا بھٹکا
٭…٭…٭

One Comment

    • Vicky Sheikh

    • 1 year ago

    Jesa khajista waly darama me hua tha same wohi scene tha…
    Aisa nhi hona chahye tha
    Murad ki maa ko wo laddu khana chahye tha

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!