Blog

Dana-Pani-Ep-5

“تُو مجھے اُس طرح کیوں دیکھ رہی ہے بتول؟”
موتیا کو اُس دن بتول کی آنکھوں کے کسی تاثر نے حیران کیا تھا۔ وہ اگلی ہی صبح اُس سے ملنے اور اُسے سب کچھ بتانے اُس کے گھر پہنچ گئی تھی اور بتول گم صم بیٹھی پلکیں جھپکائے بغیر اُس کا چہرہ تکتے ہوئے اُس کی باتیں سنتی گئی۔ وہ اُسے بتارہی تھی کہ چوہدری صاحب نے گامو کو زبان دے دی تھی۔ وہ اُس کی بارات لارہے تھے اور بتول بس اُس کا چہرہ دیکھتی جارہی تھی۔



“تجھے لگتا ہے میں جھوٹ بول رہی ہوں؟”
موتیا نے اُس سے کہا تھا۔ اُس کی خاموشی کو کھوج کے اُس نے جیسے بڑی وجہ نکالی تھی۔ بتول نے نفی میں سر ہلایا۔
“توپھر کیا تُو مجھ سے ناراض ہے سعید کا رشتہ میرے گھر آنے پر؟”
موتیا نے جیسے کوئی اور وجہ ڈھونڈی ۔ بتول نے ایک بارپھر نفی میں سر ہلایا۔ موتیا مسکرائی اور جیسے اُس نے سُکھ کا سانس لیا۔
“مجھے پتہ تھا تُو میری سکھّی ہے، تُو کہاں شک کرسکتی ہے میری نیّت پر اور میں تو کبھی مر کر بھی اُس سے شادی نہ کرتی جو تیری محبت ہے۔”
موتیا نے اُس سے کہا تھا۔ وہ اب بتول کا ہاتھ پکڑکر اُس چکّی کے پاس ہی بیٹھ گئی تھی جس میں بتول آٹا پیس رہی تھی۔ وہ مٹھی بھر بھر چکّی میں دانے ڈالنے لگی تھی جیسے بتول سر جھکائے ہاتھ سے گھمارہی تھی۔
“مجھے لگتاہے تیری اور میری بارات ایک دن ہی جائے گی۔ تو سعید کے گھر جائے گی اور میں مراد کے۔”
موتیا نے کھلکھلا کر اُس سے کہا تھا۔
“ہاد ہے نا! تو اور میں ہمیشہ سوچتے تھے کہ اکٹھے شادی کریں گے۔
موتیا نے جیسے اُسے یاد دلایا تھا۔
“موتیا ! سعید ابھی تک مجھ سے شادی پر تیار نہیں ہے۔”
بتول نے یک دم چکّی روکتے ہوئے اُس سے کہا۔
“تو ایک دفعہ اُس سے مل لے۔اُس کو سمجھا دے۔ شاید تیری بات مان لے۔”
بتول نے اُس سے کہا تھا۔
“ایک دفعہ کیا سو بار مل لوں گی اُس سے۔ بتا کب ملنا ہے اور دیکھوں گی کیسے تجھ سے شادی پر ماں باپ کو تیار نہیں کرتا۔”
موتیا نے ہامی بھرنے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگایا تھا۔
“اور میں نے خواب میں تیری اور سعید کی شادی دیکھی ہے بلکہ ایک پیاری سی بچی بھی دیکھی ہے جسے میں جھولا جُھلارہی ہوں، اور تجھے پتہ ہے میرے خواب جھوٹے نہیںہوتے۔ تیری ڈولی سعید ہی کے گھر جائے گی۔”
موتیا نے ہنستے ہوئے اُسے تسلی دی۔ بتول ایک بار پھر اُس کا چہرہ دیکھنے لگی ۔
“تُو خوش نہیں ہوئی میراخواب سن کر، مجھے تو لگا تھا تُو ناچے گی۔”
اُس کے ردِ عمل نے موتیا کو حیران کیا تھا۔ بتول نے ایک بار پھر نظریں چُرالیں اُس کے دل میں چور نہیں ڈاکو تھا اور ڈاکو بھی وہ جو سب کچھ لوٹنے آیا تھاموتیا کا۔
وہ نظریں ملاتی تو کیسے ملاتی اُس سے، کوئی شرم و حیا اگر رہ گئی تھی اُس میں تو بس اتنی ہی رہ گئی تھی کہ بچپن کی اُس سہیلی سے وہ نظر نہ ملائے جس کے ساتھ وہ بارش کے پانی میں کاغذ کی کشتی بنا کر چھوڑکر دوڑتی تھی اور جس کے ساتھ وہ کانچ کی چوڑیاں توڑ توڑ کر ایک دوسرے کے لئے پیار نکالا کرتی تھی اور جس کے ساتھ وہ آم کے درخت پر کیریاں توڑنے کے چکر میں کئی بار چڑھی اور گری تھی اور جس کے ساتھ گرنے پر اُسے کبھی چوٹ محسوس نہیں ہوئی تھی۔
“تُو میری بار ات پر کیا پہنے گی بتول؟”
موتیا کو یکدم پتہ نہیں کیا خیال آیا تھا۔
“تیری بارات پر کیسے آؤں گی تو خود ہی تو کہہ رہی ہے کہ اُس دن خود میری بھی بارات ہوگی۔”
پتہ نہیں کس دل سے بتول نے اُسے یہ جملہ کہا تھااور موتیا نے ایک لمحہ کے لئے بھی اُس کے لہجہ پر غور کئے بغیر ہنس کر اُس سے کہا تھا۔
“ہاں یہ تو سوچا ہی نہیں میں نے… دیکھنا کیسے مناتی ہوں میں سعید کو۔ تو ہمیشہ کے لئے غلام ہوجائے گی میری کہ موتیا تو نہ ہوتی تو کبھی شادی نہیں ہونی تھی میری سعید سے۔”
موتیا کہے جارہی تھی اور آئینے میںنظر آنے والا اپنا عکس بتول کے چہرے کو سیاہ سے سیاہ کرتا جارہا تھا۔ وہ اس جیسی سہیلی کے ساتھ یہ سب کیسے کرسکتی تھی۔ چکّی کے پٹ چلاتے ہوئے بتول نے اپنے آپ سے پوچھا تھا یا شاید خود کو ہمّت دلائی تھی اپنے کمزور پڑنے پر۔
“بالکل ایسے ہی کرسکتی ہے جیسے یہ چکّی اس دانے کے ساتھ کررہی ہے۔ دانہ مٹّی نہیں ہوا، آٹا بن کر کسی کی زندگی کا سامان بن گیا۔ بالکل اس ہی طرح تیرا فیصلہ بھی تجھے اور سعید کو نئی زندگی دے گا۔ تو بس کچھ نہ سوچ بتول… سوچی پیا تے بندہ گیا…”


اُس کے اندر کسی آواز نے اُسے یوں قائل کیاتھا کہ بتول کی رُکتی ہوئی سانسیں بحال ہونے لگی تھیں۔ موتیا گنگنا رہی تھی اور اُس کی آواز کسی مکھن کی چھری کی طرح بتول کو کاٹنے لگی تھی۔
عاشق،چور ، فقیر، خداتوں منگدے گُھپ ہنیرا
اک لٹاوے، اِ ک لُٹے، اِ ک کہہ دے سب کجھ تیرا
بتول اُس کی دانوں بھری مٹھی کو تکتی وہ کلام سنتی رہی۔ مٹھی اب کھل رہی تھی اور دانے اس کی چکّی کے پاٹوں میں جارہے تھے۔ بتول کو لگ رہا تھا اُن دانوں کے ساتھ اُس کی اپنی روح بھی پس پس کر مٹی ہورہی تھی۔
٭…٭…٭

One Comment

    • Vicky Sheikh

    • 1 year ago

    Jesa khajista waly darama me hua tha same wohi scene tha…
    Aisa nhi hona chahye tha
    Murad ki maa ko wo laddu khana chahye tha

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!