Blog

Dana-Pani-Ep-5

“سن موتیا اپنا دوپٹہ مجھے دے جا میرا لے جا۔ یہ نہ ہو کہ سعید سمجھے کوئی اور آیا ہے اور بھاگ جائے۔”کنویں پر پہنچتے ہی بتول نے موتیا سے کہا تھا۔
“اس چاندنی میں تمہارا دوپٹہ کیسے پہچانے گا وہ؟ تو اور میں تو دور سے ایک جیسی لگتی ہیں۔ قد کاٹھ میںبھی اور چال ڈھال میں بھی۔”موتیا نے کہا تھا۔



“میں کہہ رہی ہوں نا وہ بڑا ڈرپوک ہے بھاگ جائے گا اگر اُسے شک ہوا کہ میں نہیں کوئی اور ہے۔” بتول نے اپنا دوپٹہ اُتار کر اُسے تھماتے ہوئے اُس کا دوپٹہ اُتارنا شروع کردیا تھا۔ جو موتیا نے کسی مزاحمت کے بغیر اُسے دے کر اُس سے اُس کا دوپٹہ لے لیا تھا۔
“چل پھر یہ چوڑیاں بھی پکڑ! ان کی آواز پر بھی بھاگ سکتا ہے تیرا سعید کیونکہ تو تو چوڑیاں پہنتی نہیں وہ کہے گا آدھی رات کو کنویں پر کون سی چڑیل آگئی جو یوں چوڑیاں چھنکاتی اُس کی طرف آرہی ہے۔”
موتیا کو چوڑیاں اُتارتے ہوئے اپنی بات پر خود ہی ہنسی آئی اور اُس کا قہقہہ فضا میں عجیب باز گشت کے ساتھ گونجا تھا۔ بتول ہنس نہیں سکی ۔ پتہ نہیں اُس کے ضمیر کو کیا ہونے لگا تھا۔ اُس نے سوئے سوئے گہری نیند سے انگڑئیاں لینی شروع کردی تھیں۔ چاند کی روشنی میں چوڑیاں اتارتی ہنستی ”سہیلی ” کو دیکھتے ہوئے اُس نے اپنے ”ضمیر ” کے منہ پر ایک بار پھر تکیہ رکھ کر اُس کا سانس گھونٹنے کی کوشش کی اُس نے زیادہ مزاحمت نہیں کی وہ پہلے ہی آخری سانسوں پر تھا۔
“یہ لے اور اب بتا کن درختوں میں بلوایا ہے تو نے اُسے؟”موتیا نے اُسے چوڑیاں پکڑائی تھیں اور پھر کنویں کے اطراف میں فاصلے پر لگے ہوئے چند رختوں کے دو تین جھنڈوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“وہاں اُس برگد والے جھنڈ میں۔”بتول نے ہلکی آواز میں سرگوشی کی۔
“ہائے تجھے پتہ ہے مجھے برگد سے ڈرلگتا ہے پھر بھی وہاں ہی بلالیا تو نے اُسے۔”موتیا نے بے اختیار سینے پر ہاتھ رکھ کے کہا۔ اُس برگد کے آس پاس کیلے کے کچھ درخت تھے اور کھلے کھیتوں کے بیچوں بیچ وہ جھنڈ عجیب خوفناک منظر پیش کررہا تھا۔ چاند کی چاندنی سے روشن اس رات میں بھی۔
“پر تیرے لئے سب کرسکتی ہوں میں بتول… بس جارہی ہوں اب جب تک واپس نہ آجاؤں قل پڑھتی رہنا میرے لئے۔”موتیا نے اُس سے کہا تھا اور کنویں سے آگے کچی پگڈنڈی پر برگد کی طرف جانے لگی تھی جو کھیتوں کے بیچوں بیچ تھا۔ بتول اُسے جاتا ہوا دیکھنے لگی۔ وہ سفید کپڑوں میں چاند کی اس چاندنی میں کسی پری کی طرح کھیتوں میں لگی فصلوں کے بیچوں بیچ سے گزرتی ہوئی اُس جھنڈ کی طرف جارہی تھی۔ میلوں تک دور دور کسی چر ند پرند کا نام و نشان نہیں تھا بس تھی تو موتیا تھی سبز فصلوں پر بکھری چاندنی، سرسراتی ہوا اور موتیا۔ بتول کنویں کے پاس کھڑی اُسے دیکھ رہی تھی۔
“موتیا کو رات کو بلا کسی جگہ اور سعید سے ملوا… میں مراد کو بھیجوں گی وہ دونوں کو ساتھ دیکھ لے گا تو دل چڑھ جائے گا اُس کا موتیا سے۔ یہ بلا جو میرے گھر آنے پر تلی ہوئی ہے، یہ نہیں آئے گی۔ اور بدلے میں میں کرواؤں گی تیری شادی سعید سے۔ جو مانگے گی تجھے دوں گی جہیز میں اتنا دوں گی تجھے بتول کہ تیری نسلیں رج رج کھائیں گی… بتاکر سکتی ہے میرے لئے یہ؟”
اس کے کانوں میں تاجور کی آواز گونج رہی تھی جس نے اُس کے سامنے یہ منصوبہ رکھا تھا۔ وہ جال بچھانے کو کہا تھا جس میں موتیا کسی معصوم چڑیا کی طرح پھنس رہی تھی۔ زمین پر پھدکتے ، دانہ چگتے چند اور دانوں کی تلاش اور پھر شکاری کا وہ جال۔
“یہ تو گناہ ہوگا چوہدرائن جی۔” بتول نے تاجور کے سامنے کمزور مزاحمت کی تھی پر کی تھی اور تاجور غضبناک ہوئی تھی۔
“سیّدوں کی دھی ہوں پیروں کی بیٹی ہوں مجھے گناہ ثواب کا نہ بتا بتول! تو صرف یہ بتا یہ کرے گی یا نہیں؟ اللہ کو کیا منہ دکھائے گی وہ میں دیکھ لوں گی۔” تاجور نے عجیب گھمنڈ اور گمان کے ساتھ کہا تھا اور بتول نے سرجھکادیا تھا۔
“پر چوہدرائن جی میرے سعید کو کچھ نہ ہو۔” اُسے اچانک ہی اک وہم پڑا تھا اور اُس نے بے اختیار تڑپ کر تاجور سے کہا تھا۔
“لے پاگل ہے تو! تیرے سعید کو کیاہوگا۔”تاجور ہنسی تھی اُس کی بات پر۔
“چھوٹے چوہدری نے اگر غصے میں آکر کچھ کردیا تو؟”بتول غیرت اور غیرت کے نتیجے سے بخوبی واقف تھی۔
”میں اپنے بیرسٹر بیٹے کو قاتل بناؤں گی کسی کے خون سے ہاتھ رنگواکے؟ پاگل ہے تو بتول ۔ وہ بس آئے گا دیکھے گا۔ اُس کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوگا اور پھر سعید نے تو ویسے ہی بھاگ جانا ہے چوہدری مراد کو دیکھ کر۔ اُس نے کوئی لڑنے بھڑنے تھوڑی کھڑا ہونا ہے۔ میں پھر بھی ملازم ساتھ بھیجوں گی اُس کے اور ملازموں کو کہہ کر بھیجوں گی کہ سعید کو کچھ نہ ہو۔”
تاجور نے اُسے ایک کے بعد ایک تسلّی دی تھی اور بتول کے سارے اندیشوں، سارے خدشات اور وہموں کو جیسے سُلا دیا تھا۔
موتیا کو دیکھتے ہوئے بتول کی آنکھوں میں پانی بھرنے لگا تھا۔اُس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ موتیا اور مراد کی کہانی میں کیدو کا کردار ادا کرے گی۔پر وہ کیا کرتی… مجبوری تھی اور پتہ نہیں ہیر رانجھا کی کہانی میں کیدو کی کیا مجبوری تھی۔ اُس نے آنکھیں موتیا کے دوپٹے کے پلّو سے رگڑی تھیں ، اُس اُس کے دوپٹے سے اُس کی خوشبو آئی تھی۔ پھر اُس نے گلے میں لیا ہوا اُس کا دوپٹہ اُتار کر کنویں کے پاس اُس پگڈنڈی پر رکھ دیا جو برگد کے پیڑ کی طرف جارہی تھی۔ بہت دور کہیںسے اُس کے کانوں نے گھوڑے کے ٹاپوں کی ہلکی بازگشت سُنی تھی۔ بتول نے سیدھا کھڑا ہوکر حویلی کی سمت دیکھا تھا اور چاند کی اُس پھیلی ہوئی روشنی میں اُسے کوئی گھڑ سوار بہت دور گھوڑا بھگاتا نظر آیا۔ میلوں پھیلے ہوئے کھیتوں میں وہ ابھی بہت دور تھا۔ اور بتول صحیح طور پر نظر نہ آنے کے باوجود بھی یہ جانتی تھی کہ وہ مراد تھا۔ اُس نے اب گردن موڑ کر موتیا کو دیکھا تھا۔ وہ برگد کے جھنڈ کے پاس تھی اندر جانے سے پہلے اُس نے وہیں کھڑے کھڑے ہاتھ ہلایا تھا دور بتول کو دیکھ کر۔ یہ اشارہ تھا کہ سعید وہاں تھا اور بتول نے بھی دور سے اُسے ہاتھ ہلایا تھا۔ یہ اشارہ تھا کہ وہ اُس کا انتظار کرے گی۔
ہاتھ میں پکڑی اُس کی کانچ کی سنہری چوڑیوں کو اُس نے آگے بڑھ کر اُس پگڈنڈی میں پھینکنا شروع کیا تھا جو برگد کی طرف جارہی تھی۔ ایک … پھر دوسری…پھر تیسری… چوتھی… پانچویں… کچی پگڈنڈی پر گرتی چوڑیاں ٹیڑھی میڑھی گھومتی چکر کاٹ کرزمین پر لیٹ رہی تھیں۔ کوئی یہاں… کوئی وہاں…کوئی دائیں… کوئی بائیں… کوئی بیچ میں… پر وہ ایک ہی سمت میں ایک ٹیڑھی میڑھی لکیر کھینچ رہی تھیں… برگد کی طرف… جو بھی وہاں آتا وہ اُن چوڑیوں کو نظر انداز نہیں کرپاتا۔ وہ چاند کی روشنی میں جگنوؤں کی طرح چمک رہی تھیں اورانہوں نے کنویں کے پاس پڑے موتیا کے دوپٹے سے لے کر اُس پگڈنڈی تک جیسے ایک نشانی کھینچ دی تھی جو پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ موتیا اس راستے سے گزری ہے اور گزر کر وہاں گئی ہے۔ بتول آخری چوڑی پھینک کر کھڑی ہوگئی تھی۔ وہ اور موتیاہینسل اور گریٹل تھے پر اُن کی کہانی ہینسل اورگریٹل والی نہیں تھی۔ہینسل اورگریٹل نے جنگل میں گم ہوجانے ، راستہ یاد رکھنے کے لئے اپنے پاس موجود روٹی کے ٹکڑے اُس راستے پر پھینکنے شروع کئے تھے جہاں سے وہ گزررہے تھے، تاکہ انہیں راستہ نہ بھولے اور وہ واپس آسکیں۔ پر اُن کے پھینکے ہوئے روٹی کے ٹکڑے پرندے کھاگئے اور وہ راستہ بھٹک گئے تھے۔ وہ چوڑیا ں بھی اُن ہی روٹی کے ٹکڑوں کی طرح راستے کی نشاندہی کے لئے پھینکی گئی تھیں اور وہ کسی کی زندگی اور راستے کی حفاظت کے لئے نہیں تھیں۔


بتول نے آخری بار اُن چوڑیوں کو دیکھا۔ وہ اُس ہی نے موتیا کو تحفے میں دی ھیں۔ پچھلے بیساکھی کے میلے سے خریدی تھیں اور موتیا اب تک پہن رہی تھی۔ اُس کی ایک بھی چوڑٰ نہیں ٹوٹی تھی۔ وہ اُس کے دیئے ہوئے تحفوں کو اُس ہی طرح رکھتی تھی سنبھال سنبھال کر بلکہ وہ تو ہر ایک چیز کو ہی سنبھال کر رکھتی تھی۔ بتول کے دل کی کیفیت ایک بار پھر عجیب ہونے لگی تھی۔ شکر ہے ضمیر مرا پڑا تھا، ورنہ پھر سے مشکل آجاتی اُسے۔
وہ گھڑسوار اب قریب آتا جارہا تھا اور اُس کے گھوڑے کے قدموں کی دھمک بھی بڑھنے لگی تھی۔ بتول کو اب چھپنا تھا۔ ایک آخری نظر اُس نے برگد کے جھنڈ اور آنے والے سوار پر ڈالی اور پھر وہاں سے قدم بڑھادیئے تھے۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے اُس کے جہیز کے سامان سے بھرا ہوا گھرآنے لگا تھا اور دانوں سے بھرے ہوئے بھڑولے اور دلہن بنا زیورات سے لدا ہوا اُس کا اپنا وجود اور نوٹوں کے ہاروں سے لدا اور سہرے کی تاروں کے پیچھا ہوا سعید کا چہرہ… اور ہوائی جہاز کی سیٹیںاور کویت کی سڑکیں اور پھر وہاںاُس کا عربی شیخوں والا ایک بڑا ساگھر جو اُس کے جہیز کے سامان سے سجا ہوا تھا۔ وہ جیسے کسی ٹرانس میں چلتے ہوئے کنویں کے پاس سے ہٹی تھی اور کسی سحر زدہ معمول کی طرح چلتے ہوئے غائب ہوگئی تھی۔
٭…٭…٭

One Comment

    • Vicky Sheikh

    • 1 year ago

    Jesa khajista waly darama me hua tha same wohi scene tha…
    Aisa nhi hona chahye tha
    Murad ki maa ko wo laddu khana chahye tha

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!