Blog

Dana-Pani-Ep-7

”بتول تو اب آئی ہے تو کسی دن میرے ساتھ چل اب آئی ہے تو موتیا سے ملنے چلتے ہیں۔” شکوراں نے بتول سے کہا تھا جو اُس کے پاس کئی مہینوں بعد رہنے کے لئے آئی تھی۔
”میں ایک آدھ بار گئی ہوں ان کی طر ف پر مجھ سے تو ملتی ہی نہیں اللہ وسائی۔ مجھے پھر بھی بڑا ترس آتا ہے ان پر… جو ان بیٹی پاگل ہوجائے تو اس کا غم بہت بھاری ہوتا ہے اور بیٹی بھی موتیا جیسی۔” بتول شکوراں کی باتیں سن رہی تھی پھر پاگل کے لفظ پر جیسے چونکی تھی۔


”کس نے کہا کہ پاگل ہوگئی؟”
”ڈاکٹروں نے… گامو شہر لے کر گیا تھا اُسے پر شہر کے ڈاکٹروں کو سمجھ ہی نہیں آئی اس کی بیماری۔ انہوں نے کہا کہ پاگل ہوگئی ہے اسے اب کچھ یاد نہیں… یاداشت ختم ہوگئی ہے اس کی۔” شکوراں نے گاؤں میں سنی سنائی باتیں بیٹی کو بھی سنادی تھیں اور وہ اب بے قراری کے عالم میں اپنی انگلیاں چٹخانے لگی تھی۔
”پاگل کیسے ہوسکتی ہے اماں؟ موتیا تو…” اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ماں کو اُس کے پاگل نہ ہونے کی کیا دلیل دے ۔
”ہو جاتا ہے بندہ پاگل جب کوئی دھوکا دے دے۔ پاگل ہونے کے لئے کون سی لکھت پڑھت کرنی پڑتی ہے۔” شکوراں کا سادہ سے لہجے میں کہا گیا جملہ تیر کی طرح بتول کے دل پر لگا تھا۔
”دھوکہ تو اُسی نے دیا تھا اُسے پر اُسے یہ پتا تو نہیں تھا کہ موتیا اس غم کو اس طرح…” بتول سوچتی اور انگلیاں چٹخاتی رہی۔
”اور بتول تونے کسی ڈاکٹر کو دکھانا تھا سعید کے ساتھ اتنی بار تو شہر گئی ہے تو۔ کوئی خوشخبری آجاتی تیری بھی۔ اتنے مہینے ہوگئے ہیں۔ اب تو گاؤں والے پوچھتے ہیں مجھ سے۔ تیرے ساتھ ہی شادی ہوئی تھی ماہ نور بی بی کی اور کتنی جلدی گود ہری ہوگئی ہے۔” شکوراں نے اچانک ہی موضوع بدلا اور بتول بُری طرح چڑی۔
”بس کر اماں !ساس اور سسرال والوں نے بھی جان کھائی ہوئی ہے میری یہی کہہ کہہ کے۔ اب نہیں ہورہا بچہ تو میں کیا کروں۔” وہ بڑے غصے میں ماں سے کہہ کر صحن سے اُٹھ کر چلی گئی اور جیسے شکوراں کو فکر مند کرگئی۔
٭…٭…٭


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!