Blog

Dana-Pani-Ep-7

”چوہدرائن جی نے اچھا نہیں کیا میرے دل کو تو بڑا صدمہ ہواہے اس طرح موتیا کی بے عزتی کا۔ بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ نہیں شادی کرنی تھیں نہ کرتیں پر اس طرح کسی کو آس لگا کر ذلیل کرنا… تو بہ … توبہ! مجھے پتا ہوتا نا کہ ابھی تک گامو اور اللہ وسائی کو پتا ہی نہیں ہے کہ چوہدری اپنا بیٹا کہیں اور بیاہ رہا ہے تو میں خود جاکر اطلاع کردیتی اُن کو۔ پر میں بھی بس تیرے ہی کاموں میں لگی رہی۔ اب صبح خیر سے بارات ہے تیری۔ اللہ خیر سے وقت نبٹائے۔”
شکوراں رات گئے بتول کو لئے بیٹھی داج کے جوڑے بکسے میں رکھ رہی تھی اور ساتھ چوہدری مراد کی بارات کے بارے میں باتیں کررہی تھی اور اپنے افسوس کا اظہار کررہی تھی۔ مایوں کے کپڑوں میں ملبوس بتول کو یک دم پیا س لگی تھی۔



باہر صحن میں گھڑے سے پانی کا پیالہ بھرکر پیتے ہوئے اس کے کانوں میں ماں کی آواز گونجنے لگی تھی۔ اُس کا دل عجیب سے انداز میں گھبرایا تھا۔ شکوراں نے ٹھیک کہا تھا۔ چوہدرائن کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ بتول بھی ماں سے متفق تھی اور احساس جرم کا شکار بھی اور اُسے رہ رہ کر موتیا کا خیال آرہا تھا۔ پتا نہیں اس پر کیا گزر رہی تھی۔
اگر اس طرح سعید کی بارات اس کے دروازے کے سامنے سے گزر کر چلی جاتی تو ؟وہ جیسے ہول کر رہ گئی اور اس نے آگے کچھ سوچنا بھی نہیں چاہا تھا ۔ اندر بیٹھی شکوراں کچھ عجیب سی سوچ میں پڑی تھی۔ اُس کی بیٹی پچھلے کچھ دنوں سے کچھ عجیب سی ہوگئی تھی۔ اس نے موتیا کے ساتھ ہونے والے ظلم پر ایک لفظ نہیں کہا تھا نہ ہی وہ سن کر موتیا کے گھر کی طرف بھاگی تھی۔
”تیری اور موتیا کی تو صلح ہے نا؟” بتول کے پانی پی کر اندر آنے پر اُس کی ماں نے بغیر اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھا تھا اور بتول ماں کی نظروں سوال اور انداز پر گڑبڑائی تھی۔
”ہاں اماں میرے اور اس کے بیچ کیوں کوئی جھگڑا ہوگا؟ میرا تو دل دُکھ سے پھٹ رہا ہے۔ میں مایوں نہ بیٹھی ہوتی تو موتیا کے پاس جاتی اُس کا غم بانٹتی۔ پر اب اپنے مایوں کے جوڑے میں اُس کے سامنے جاؤں گی تو اس کا دل اور دُکھے گا۔” بتول کو ماں کے کچھ کہے بغیر بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ ماں کیوں اس سے یہ سوال جواب کرنے بیٹھی تھی۔
”ہاں ٹھیک کہتی ہے تو۔ ابھی تو جانا بھی مت اس کے پاس۔ اللہ خیر سے تجھے کل اپنے گھر کا کرے پھر آکر مل لینا موتیا سے۔” شکوراں نے فوراً کہا۔ اُسے بتول کی باتوں پر فوراً ہی بدشگونی کا خیال آنے لگا تھا۔ بتول کپڑوں کے اُس ڈھیر کو دیکھنے لگی۔ جو چوہدرائن نے اُسے دیئے تھے پورے اکیاون جوڑے اور ایک سے بڑھ کر ایک۔
”تیرا داج ایسا ہوگا کہ تیرا سسرال سالوں باتیں کرے گا اس کی۔” چوہدرائن نے اس سے کہا تھا۔ بتول کمرے میں پڑی چیزیں دیکھنے لگی۔ سامان کا ڈھیر سعید کے گھر چلا بھی گیا تھا۔ تاجور نے پھر بھی اور بہت کچھ بھیج دیا تھا۔ پتا نہیں سامان کے اس ڈھیر کو دیکھ کر بتول کو خوشی کیوں نہیں ہورہی تھی۔



کچھ تھا جو اُسے پریشان کررہا تھا، تنگ کررہا تھا۔ اس کی ماں رات گئے لالٹین کی روشنی میں جوڑے ٹانگٹے ہوئے ایک ٹپہ گانے لگی تھی اور بتول کی آنکھوں کے سامنے صرف موتیا کا چہرہ آرہا تھا۔ پتا نہیں وہ کس حال میں تھی اور اگر کبھی اُسے یہ پتا چل گیا کہ یہ سب کچھ میں نے کیا ہے تو وہ کیا کرے گی؟ اُس نے جیسے موتیا کے ممکنہ ردعمل کے بارے میں سوچنے کی کوشش کی تھی۔
اُس کے ذہن میں کوئی جواب نہیں آیا تھا۔ وہ جانتی تھی موتیا کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ وہ بے بس تھی۔ بتول پھر بھی بیٹھے سوچی جارہی تھی۔ اس نے سعید کو پانے کے لئے بہت بڑی قیمت ادا کی تھی۔ اس نے موتیا نہیں کھوئی تھی اپنے ایمان کا بھی سودا کیا تھا۔ بتول نے سوچا تھا وہ سعید سے شادی کے بعد فوراً حج یا عمرے پر جائے گی اور اللہ سے توبہ کرے گی۔ پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔ بستر پر لیٹتے ہوئے اس نے جیسے اپنے آپ کو تسلی دی ۔ اس کے کانوں میں اب بھی شکوراں کے ٹپے کی آواز گونج رہی تھی۔
مکھڑے دا تل ماہیا
اساں تیرے نال جانا
چاہے ویچاں دل ماہیا
٭…٭…٭


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!