Blog

Dana-Pani-Ep-7

چوہدری شجاع نے مراد کی بارات کے پورے راستے دوبارہ تاجور سے بات نہیں کی تھی اور تاجور نے اُسے مخاطب کرنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔ اُسے یقین تھا چوہدری شجاع کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا جیسے ہمیشہ ہوجاتا تھا۔
چُپ صرف چوہدری شجاع کو نہیں لگی تھی مراد کو بھی لگ گئی تھی۔ تاجور نے شوہر کو نظر انداز کردیا تھا پر بیٹے کا بُجھا ہوا چہرہ اور خاموشی اُس سے برداشت نہیں ہوپارہی تھی۔ وہ ساری رسموں میں خاموش رہا تھا۔ جو وہ کہتی رہی وہ کرتا رہا۔ تاجور کو لمحہ بھر کے لئے موتیا کی گلی میں یہ خدشہ ہوا تھا کہ وہ آخری لمحہ میں اُس سے بغاوت نہ کربیٹھے مگر مراد نیایسا کچھ بھی نہ کرک ے جیسے اُس کی گردن کی اکڑ کو اور بڑھادیا تھا۔ کس کا بیٹاتھا جو یوں پردیس سے آکر بھی ماں باپ کے کہنے پر وہاں شادی کرے جہاں وہ چاہتے تھے۔ تاجور نے یہ جملہ وہاں کئی لوگوں سے سُنا اور ساتھ اپنے لئے تعریفی جملے بھی۔



ماہ نور کو وہ بڑی شان وشوکت سے بیاہ کر لے آئی تھی اور اُسے یقین تھا ماہ نور کا حسین چہر ہ دیکھتے ہی مراد موتیا کو بھول جائے گا۔ وہ موتیا جیسی حسین نہ سہی، مگر بہرحال حسین تھی اور سولہ سنگھار کے ساتھ وہ کم از کم اُس رات موتیا سے کم بھی نہیں لگ رہی تھی۔
وہ رات گئے اپنے کمرے کی کھڑکی بند کرنے کے لئے اُٹھی تھی، جب اُس نے رات کے پچھلے پہر مراد کو صحن میں لگے ہوئے موتیے کے پودوں کے درمیان چکّر کاٹتے دیکھا۔ تاجور کو لگا کسی نے اُس کا دل لمحہ بھر کے لئے پکڑ کر کھینچا تھا۔ وہ یہاں کیسے تھا، اُسے تو ماہ نور کے پاس ہونا چاہیے تھا۔ تاجور جیسے لپکتے ہوئے باہر آئی تھی۔
“مراد! خیریت تو ہے نا؟ “اُس کی آواز پر مراد چکّر کاٹتے کاٹتے رکا تھا اور اُس نے ماں کو دیکھا۔
“جی…”
” تو یہاں کیا کررہے ہو؟ “اندر دُلہن کے پاس جاؤ۔ وہ تمہارا انتظار کررہی ہوگی۔ تاجور نے اُس کی پشت کو تھپکا۔
و ہ ماں کو دیکھتا رہا، پوچھنا چاہتا تھا وہ اُس کی بارات کو موتیا کے دروازے کے سامنے سے کیوں لے کر گئیں تھیں؟ یہ بھی پوچھنا چاہتا تھا کہ موتیا دُلہن بنی چھت پر کیوں کھڑی تھی؟ کیا وہ اُس کے انتظار میں تھی؟ کیا کسی نے اُسے مراد کی ماہ نور سے شادی کے بارے میں نہیں بتایا تھا؟ وہ پتہ نہیں ماں سے وہاں کھڑے کھڑے کیا کیا پوچھنا چاہتا تھا پر کچھ بھی پوچھنے کی چاہ ہی نہیں رہی تھی اُسے۔ کسی سوال کا صحیح جواب موتیا کو اُس کا نہیں کرسکتا تھا۔ کسی سوال کا غلط جواب ماہ نور کو اُس کی زندگی سے نہیں نکال سکتا تھا۔ وہ ماں کا چہرہ دیکھتا رہا اور پھر اندر چلا گیا۔ تاجور کا دل جیسے ہلکا ہوا۔
“کچھ دنوں میں ٹھیک ہوجائے گا، چند دنوں میں بھول جاتے ہیں سب محبت کو بھی اور محبوب کو بھی… جو نظر نہیں آتا ، وہ یاد بھی نہیں رہتا۔”
تاجور کو یہ فلسفہ پتہ نہیں کس نے سمجھایاتھا۔
٭…٭…٭



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!