Blog

Dana-Pani-Ep-7

”پھوپھو مجھے اپنے کمرے میں رات کو موتیا کی خوشبو آتی ہے۔ مجھے بڑا ڈر لگتا ہے۔” ماہ نور کے حمل کے آخری مہینے چل رہے تھے جب ایک صبح اُس نے بڑی پریشانی سے تاجور کو بتایا تھا۔ تاجور پریشان ہوگئی۔
”مجھے کیوں نہیں بتایا تو نے پہلے میں تیرے ساتھ سوجاتی رات کو۔”


”بس ایسے ہی پھوپھو۔ میں نے سوچا وہم ہوگا میرا پر وہم نہیں ہے۔” ماہ نور نے اُس سے کہا۔
”بیٹا وہم ہی ہوگا۔ اس حالت میں عورتوں کو عجیب عجیب خوشبوئیں آنے لگتی ہیں پر میں آج سے تمہارے ساتھ سویا کروں گی کمرے میں اور ساتھ پڑھائی بھی کروں گی ۔ تم دیکھنا کچھ نہیں ہوگا وہم ہی نکلے گا تمہارا۔” تاجو رنے اُسے تسلی دی تھی اور ماہ نور نے مطمئن نظر آنے کی کوشش کی تھی۔
تاجور اُس رات اس کے ساتھ سوئی تھی اور آدھی رات کو وہ گہری نیند میں تھی جب ماہ نور نے اُس کا کندھا ہلا کر اُسے جگایا تھا۔ تاجور نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھول دی تھیں لیکن اُسے سمجھ نہیں آئی تھی کہ ماہ نور نے اُسے کیوں جگایا تھا۔
”پھوپھو موتیا کی خوشبو آ رہی ہے! آپ کو آرہی ہے؟” تاجور نے کہنے کی کوشش کی تھی کہ وہاں کوئی خوشبو نہیں تھی اور وہ ماہ نور کا وہم تھا پر یہ کہنے کے لئے منہ کھولتے ہی تاجور نے موتیا کی وہی خوشبو محسوس کی تھی۔ ماہ نور ٹھیک کہہ رہی تھی ۔ کمرے میں موتیا کی خوشبو آرہی تھی۔ تاجور اُٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔ نیند یک دم کسی بھوت کی طرح غائب ہوگئی تھی۔
”کہاں سے آرہی ہے یہ خوشبو ؟” تاجور نے عجیب بڑبڑانے والے انداز میں کہا تھا اور ماہ نور کو دیکھا تھا۔ جس کے چہرے پر خوف تھا۔ تاجور نے اُٹھ کر سردی میں بھی کمرے کی کھڑکیاں کھولنے کی کوشش کی تھی۔
”ابھی ہوا بھرے گی تو ٹھیک ہوجائے گا کمرہ ۔” تاجو رنے ماہ نور کو جیسے تسلی دینے والے انداز میں کہا تھا۔ ماہ نور نے جواباً تاجور سے کہا۔


”پھوپھو خوشبو اوربڑھ گئی ہے۔” تاجور نے ایک گہرا سانس لے کر جیسے ہوا کو سونگھنے کی کوشش کی تھی۔ موتیا کی خوشبو اب واقعی تیز ہوگئی تھی۔ تاجور نے کھڑکیوں کے باہر جھانکنے کی کوشش کی ۔ اُسے لگا شاید وہاں کوئی موتیا کے پودے ہوں گے وہاں کوئی پودا نہیں تھا۔
”پھوپھو موتیا کے پھول اس موسم میں نہیں نکلتے۔” اس نے عقب میں ماہ نور کی آواز سنی تھی اور پلٹ کر اس کو دیکھا تھا۔ ہاں وہ تو یہ بھول ہی گئی تھی۔
”لوگ کہتے ہیں موتیا پاگل ہوگئی ہے مگر مجھے پورا یقین ہے یہ اپنے ماں باپ کے ساتھ بیٹھی جادو ٹونہ کررہی ہے ہم پر۔” تاجور نے طیش کے عالم میں کہا تھا ۔ اُس کے ذہن میں جادو ٹونے کے علاوہ کسی چیز کا خیال ہی نہیں آسکتا تھا۔
”تو آج سے مراد کے کمرے میں نہیں سوئے گی ماہ نور… میں تیرے لئے دوسرا کمرہ تیار کرواتی ہوں ۔ اللہ ایسے حاسد اوربد فطرت لوگوں کو تباہ کرے جو میری اگلی نسل پر نظر یں گاڑے بیٹھے ہیں۔” تاجور غضب کے عالم میں ماہ نور کا ہاتھ پکڑے مراد کے کمرے سے نکل گئی تھی۔ کمرہ اب بھی موتیا کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ سردیوں میں بھی وہاں موتیا کا راج تھا۔
٭…٭…٭


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!