Blog

Dana-Pani-Ep-7

پورے گاؤں نے اگلے کئی دن گامو اور اللہ وسائی کو گھر سے باہر نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی ان کے گھر کا دروازہ کھلا تھا۔ آس پڑوس والے ہمدردی اور حال احوال پوچھنے کے لئے دروازہ بجاتے رہتے پر وہ دونوں اندر سے ہی نہ ملنے کا کہہ دیتے تھے۔ ان گاؤںوالوں سے وہ کیا ملتے جو اس بارات میں لٹائے جانے والے سکے لوٹتے رہے تھے جس میں ان کی عزت کا جنازہ نکلا تھا۔
گامو اور اللہ وسائی نے ساری زندگی ان لوگوں کی خدمت کی تھی۔ ان کی غمی خوشی میں آگے بڑھ بڑھ کر حصہ ڈالا تھا پر ان میں سے کوئی اس وقت ان کی مدد کے لئے نہیں آیا تھا۔ ان میں سے بہتوں کو اندر خانے پتہ تھا کہ وہ بارات گامو کے گھر نہیں آنی تھی۔پرپھر بھی انہوں نے گامو کو پہلے کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔ گامو اور اللہ وسائی کا غصہ بجا تھا پر انہیں یہ پتا نہیں تھا کہ وہ گاؤں والے نہیں تھے۔ ”دنیا ” تھی اور ”دنیا” تماشہ دیکھتی ہے تماشہ روکتی نہیں ۔


گامو نے اپنے گھر اور صحن میں گرنے والا ایک ایک سکہ اُٹھا کر کسی نجس چیز کی طرح باہر گلی میں اُچھالا تھا ۔ وہ چوہدریوں کے گھر سے آنے والی چیز تھی اور گامو کو اب چوہدریوں کے گھر کا دانہ تک نہیں چاہیے تھا سکہ تو الگ چیز تھی۔
گھر کے اندر دونوں میاں بیوی موتیا کے پاس بیٹھے رہتے جو اُسی حالت میں اب بھی تھی جس حالت میں اس بارات کے جانے کے بعد وہ گئی تھی۔ ماں باپ روتے اُس کے منہ میں لقمے ڈالتے پانی پلاتے۔ وہ چند لقمے لیتی پانی پیتی پھر لیٹ جاتی پر چپ کا روزہ اس نے اب بھی نہیں توڑا تھا اور گامو اور اللہ وسائی تڑپ رہے تھے۔ وہ اُسے پکارتے اُسے باتیں کرتے رہتے وہ چپ بیٹھی اُنہیں روتا بلکتا دیکھتی رہتی یوں جیسے وہ اس کے ماں باپ نہیں تھے یوں جیسے ان کے رونے سے اس کا غرض ہی نہیں تھی۔
”میں نے پیر صاحب کے پاس لے کر جانا ہے موتیا کو! میں نے اُنہیں دکھانا ہے کہ ان کے خاندان نے میری بیٹی کا کیا حال کیا ہے۔” گامو نے ایک رات اللہ وسائی سے کہا تھا اور اس نے جواباً گامو سے کہا۔
”کوئی فائدہ نہیں گامو! کچھ نہیں ہوگا۔ انہوں نے اپنی پوتی بیاہ دی ہے چوہدریوں کے گھر۔ اُنہیں کیا پتا نہیں تھا کہ وہ میری موتیا کا نصیب تھا؟ میری موتیا کا نصیب چھیننے والوں سے میں موتیا کے حال کے لئے کیا دُعا کرواؤں ۔” اللہ وسائی غصے میں بولتے بولتے رونے لگی تھی۔
”دُعانہیں کروانی اب میں نے اُن سے۔ کبھی کسی چیز کے لئے دُعانہیں کروانی۔ پر شکایت تو کر کے آنی ہے میں نے اللہ وسائی! اپنی بیٹی کی حالت تو دکھانی ہے میں نے اُنہیں۔” گامو اپنی بات پر مصر رہا تھا اور اللہ وسائی کو اس کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے تھے۔
اگلے دن گاؤں والوں نے بڑے دنوں کے بعد گامو کے گھر کا دروازہ کھلتے اور اُن تینوں کو گھر سے نکلتے دیکھا گامو اور اللہ وسائی کے درمیان اُن کا ہاتھ پکڑے چلتی موتیا کو کسی نے پہچانا ہی نہیں تھا۔ وہ دنوں میں جیسے سوکھ کر کانٹا ہوگئی تھی۔ گاؤں والوں نے راستہ روک کر گامو اور اللہ وسائی سے افسوس کا اظہار کرنے کی کوشش کی تھی پر اُن دونوں میں سے کسی نے اُن کا ”پرسہ” نہیں لیا تھا ۔ تماش بینوں کی کیا ہمدردی اور کیا افسوس۔
گامو نے پیر ابراہیم کے ڈیرے پر جاکر صرف شکایت کا سوچا تھا۔ پر اُسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہاں جاکر وہ رو پڑے گا۔ پیر ابراہیم موتیا کی حالت دیکھ کر چپ کے چپ ہی رہ گئے تھے۔
”کمی کمین ہیں ہم پر انسان ہیں پیر صاحب !آپ کی بیٹی اور نواسے نے یہ حال کیا ہے میری بیٹی کا۔” گامو نے روتے ہوئے اُن سے سارا قصہ کھول کے رکھ دیا تھا۔
پیر ابراہیم کا دل لرز کررہ گیا تھا۔ آج تک ان کے ڈیرے پر کوئی اُن سے اُن کے خاندان کے کسی فرد کی شکایت لے کرنہیں آیا تھا ۔ اور اب آیا بھی تھا تو ان کی اکلوتی بیٹی تاجور کی شکایت کرنے ۔ اس کے بیٹے کے خلاف مقدمہ لے کر اور ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ جواب میں کیا کہیں۔ تاجور نے ان سے غلط بیانی کی تھی۔ لیکن اس غلط بیانی کے ساتھ اس نے جو کچھ گامو کے ساتھ کیا تھا وہ انہیں ہولا رہا تھا۔ یہ ایسا بدلہ ایسا انتقام ایسا غصہ کہاں سے لے لیا تھا اُس سید زادی کی بیٹی نے جس کی ماں سے بڑا نرم دل کوئی تھا ہی نہیں۔


”آپ دُعا کریں ہمارے لئے کہ جنہوں نے ہم پر ظلم کیا وہ تباہ و برباد ہوں… اُن کی اگلی نسلیں ختم ہوجائیں۔ ہم بدلہ نہیں لے سکتے اُن سے۔ اللہ بدلہ لے!”
اللہ وسائی نے پیر ابراہیم سے کہا تھا اور پیر ابراہیم ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکے تھے۔ وہ ظالموں کو پہچانتے تھے۔ وہ اُن کا خون تھے اُن کی نسل تھے۔ اپنی نسل کو خود ختم ہوجانے کی بددُعا وہ کیسے دیتے؟ گامو جانتا تھا پھر بھی اصرار کررہا تھا وہ جیسے اُن کی ولائیت کو چیلنج کررہا تھا۔ اُن کے ڈیرے پر بیٹھے لوگوں کے سامنے اُس نے پیر ابراہیم کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کردیا تھا۔ اُنہیں کٹہرے میں کھڑا ہوکر انصاف کرنا تھا۔
ایک لمبی خاموشی کے بعد پیر ابراہیم اپنی جگہ سے اُٹھے تھے اور وہ موتیا کے سامنے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئے تھے۔ اپنے ہاتھ جوڑتے ہوئے انہوں نے موتیا سے کہا۔
”میری بیٹی اور اُس کے خاندان کو بددعا نہ دینا موتیا۔” وہ موتیا کے سامنے گڑگڑائے تھے۔
وہاں بیٹھے اُن کے مرید ساکت تھے ۔ پیر ابراہیم کو اس حالت میں انہوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ سرجھکائے بیٹھی موتیا نے سر اُٹھا کر پیر ابراہیم کو دیکھا تھا اور دیکھتی ہی رہی تھی۔ پیر ابراہیم کے پاس ولایت عبادت اور ریاضت سے آئی تھی۔ سامنے بیٹھی ہوئی موتیا کے پاس وہ نہیں تھی۔ پیر ابراہیم پھر بھی اُس سے خوفزدہ تھے۔ وہ ٹوٹا ہوا دل تھا جسے سنبھالنے رب آگیا تھا اور پیر ابراہیم مظلوم کی آہ سے کیسے نہ ڈرتے۔ لوگ اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے سے ڈرتے تھے۔ اور پیر ابراہیم کے لئے اس وقت موتیا کی آنکھوں میں دیکھنا مشکل ہوگیا تھا۔
گامو اور اللہ وسائی پیر ابراہیم کے بندھے ہوئے ہاتھ اور جھکاہوا سر دیکھتے رہے اور پھر بے حد شکست خوردہ انداز میں وہ موتیا کا ہاتھ پکڑ کر کھڑے ہوگئے تھے۔ اُن کے پاس مزید کہنے کوکچھ بھی نہیں تھا یہ بھی نہیں کہ انہوں نے چوہدریوں کو معاف کیا یہ بھی نہیں کہ اُنہیں پیر ابراہیم سے اب کوئی گلہ نہیں۔


پیر ابراہیم کے ڈیرے کے باہر اُس دن پہلی بار ماہ نور نے موتیا کو دیکھا تھا۔ وہ نئی دُلہن کی طرح سجی سنوری ملازمہ کے ساتھ ڈیرے کے برآمدے کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ اور موتیا اپنے ماں باپ کے ہاتھ پکڑے سیڑھیاں اُتر رہی تھی۔ سیڑھیاں اُترتے ہوئے اُس نے سراُٹھا کر ماہ نور کو دیکھا تھا اور جیسے اُس کی نظریں ماہ نور پر جم ہی گئی تھیں پر ماہ نور کی نظریں بھی اُس سے اُلجھی تھیں۔ گامو اور اللہ وسائی نے ماہ نور کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ بس اپنی بیٹی کے ہاتھ تھامے احتیاط سے اُسے سیڑھیاں اُتارتے رہے۔ ماہ نور نے سیڑھیاں چڑھنے سے پہلے ایک نظر پلٹ کر دور جاتی موتیا کو دیکھا تھا اور پھر ملازمہ سے پوچھا ۔
”یہ کون تھی؟”
”موتیا تھی باجی… گامو اور اللہ وسائی کے ساتھ… لوگ کہتے ہیں یہ شیدائن ہوگئی ہے۔”
اُس کے ساتھ حویلی سے آئی ملازمہ نے بڑے افسوس والے انداز میں اُسے بتایا تھا اور ماہ نور جیسے سکتے میں آگئی تھی۔ اُس نے بے یقینی کے عالم میں پلٹ کر دور جاتی ہوئی اپنی اُس رقیب کو دیکھا تھا۔ جس کے پاس اُس کے سر کے تاج کا دل تھا۔
”اسے کیا ہوا ہے؟” اُس نے ملازمہ سے پوچھا۔ ملازمہ کی آنکھوں اور چہرے پر عجیب سا اثر آیا پھر اُس نے نظریں چُرا کرکہا۔
”مجھے نہیں پتا باجی جی۔” ماہ نور نے وہاں کھڑے آتے جاتے لوگوں کے درمیان اُس سے مزید کچھ نہیں پوچھا۔
اُس نے آج وہ موتیا دیکھ لی تھی جس کے حسن کے قصے اُس نے کئیوں سے سنے تھے اور عشق کی داستانیں اُس نے مراد کی شکل میں دیکھ لی تھی۔ اُسے اس لٹی پٹی موتیا سے حسد نہیں ہوا تھا لیکن اُسے اس پر ترس بھی نہیں آیاتھا۔ ملازمہ کے گونگا ہوجانے پر بھی اُسے اندازہ تھا موتیا کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ اُس سے مراد چھن گیا تھا اور وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوگئی تھی اور وہ… اُسے مراد مل گیا تھا اور وہ تب بھی ویسی ہی کنگال تھی۔
٭…٭…٭


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!