Blog

Dana-Pani-Ep-7

تاجور پانی کا ایک گھونٹ بھی نہیں لے سکی تھی۔
”یہ کہاں کا پانی لاکر رکھ دیا ہے ؟ ” اس نے ناراض ہوکر اس ملازمہ سے کہا تھا جو ناشتے کا سامان لالا کر میز پر رکھ رہی تھی۔
”آج گامو پانی دے کر نہیں گیا تو گھر کے کنویں کا پانی ہی لاکر رکھا ہے۔” ملازمہ نے ڈرتے ڈرتے اُسے بتایا۔



ایک لمحہ کے لئے تاجور خاموش رہی تھی پھر اُس نے تحکمانہ انداز میں ملازمہ سے کہا۔
”اسلم سے کہو گاؤں کے کنویں سے لے کر آیا کرے ہر روز پانی۔ اب بھی لے کر آئے۔” ملازمہ اُس کے حکم پر بھاگی ہوئی چلی گئی تھی۔
”اور یہ گھر کے کنویں کی بھی صفائی ہونے والی ہے۔ اتنا بد ذائقہ پانی تو کبھی بھی نہیں رہا اس کا۔” اس نے دوسری ملازمہ کو گھر کے کنویں کی صفائی کی ہدایات دیں تھیں۔ وہ بھی گھر کے مرد ملازموں کو یہ ہدایات پہنچانے چلی گئی تھی۔ اور تب ہی ماہ نور سجی سنوری ہوئی سلام کرتی کمرے میں داخل ہوئی۔ تاجور جیسے فدا ہونے والے انداز میں اس کے لئے اُٹھی اور اُسے سینے سے لگا کر پیار کرتے ہوئے اس نے ناشتے کی میز پر بٹھایا تھاوہ ولیمے کی صبح تھی اور تاجور نے گہری نظروں سے ماہ نور کو دیکھا تھا۔ یوں جیسے یہ کھوجنا چاہتی تھی کہ ماہ نور کے چہرے پر دلہناپے کی خوشی اور چمک تو تھی۔ وہ سیدھا سیدھا ماہ نور سے یہ سوال نہیں کرسکتی تھی کہ مراد کو موتیا یاد تو نہیں آئی تھی نا۔ ماہ نور کا چہرہ اُسے کسی گہری سوچ میں لگا ۔ وہ سر سے پیروں تک زیورات میں لدی پھندی تھی پر پھر بھی تاجور کو لگا جیسے وہ ذہنی طور پر کہیں اور تھی۔ تاجور نے اپنی رائے کو جیسے خود ہی جھٹلاتے ہوئے اس سے کہا تھا۔
”بیٹا مراد کہاں ہے؟ وہ تیار نہیں ہوا ابھی تک؟”
ماہ نور نے جواباً ساس کو دیکھتے ہوئے مدھم آواز میں کہا تھا۔
”وہ تو صبح سویرے ہی کہیں چلے گئے تھے ۔ اس کے بعد کمرے میں نہیں آئے۔ میں سمجھ رہی تھی وہ آپ کے پاس ہیں۔” تاجور ایک لمحہ ٹھٹکنے کے بعد بولی۔
”ہاں آیا تھا صبح میرے پاس لیکن میں نے سوچا پھر تمہارے پاس چلا گیا ہے۔ شاید حویلی میں چہل قدمی کررہا ہوگا۔ گوروں کی طرح اُسے عادت ہوگئی ہے ہر صبح سویرے اٹھ کر سیر کرنے کی۔” تاجور نے ہنستے ہوئے جیسے بیٹے پر پردہ ڈالا تھا۔ تب ہی ملازمہ کمرے میں داخل ہوئی تھی۔
”چھوٹے چوہدری کو دیکھو حویلی میں کہاں ہیں؟” تاجور نے اسے ہدایت دی تھی۔
”وہ تو جی صبح ہی گھوڑے پر بیٹھ کر کہیں چلے گئے تھے۔ میں جب حویلی آرہی تھی تو میں نے اُنہیں جاتا دیکھا تھا۔” ملازمہ نے اطلاع دی اور پراٹھوں کی چنگیر رکھ کر چلی گئی۔
”ہاں وہ گیا ہوگا صبح صبح نہر کنارے جایا کرتا ہے اکثر۔” تاجور نے اس بار بہو سے نظریں چراتے ہوئے کہا تھا اور موضوع بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے سامنے پلیٹ رکھتے ہوئے اس سے کہا۔
”بیٹا تم تو ناشتہ کرو… آجائے گا وہ تھوڑی دیر میں۔” ماہ نور نے مراد کا انتظار کرنے کا اصرار نہیں کیا تھا۔ اُسے پتا تھا اس کی پھوپھی پردہ ڈالنے کی کوشش کررہی تھی اور اس نے پھوپھی کا ساتھ دیا تھا۔
”ارے یہ تو پوچھا ہی نہیں میں نے کہ اس نے تمہیں منہ دکھائی میں کیا دیا۔” تاجور نے اس کی کلائیوں میں کنگن دیکھنے کے باوجود بے نیاز نظر آنے کی اداکاری کرتے ہوئے پوچھا۔ پراٹھا اپنی پلیٹ میں رکھتے ہوئے ماہ نور سے تاجور کو دیکھا اور پھر کہا۔
”انہوں نے مجھے منہ دکھائی میں موتیا کا نام دیا تھا۔ میرا نام وہ بھول گئے تھے… کہہ رہے تھے کسی نے انہیں بتایا ہی نہیں۔” اس نے اتنے سادہ لہجے میں یہ بات کہی تھی تاجور پھر بھی کٹ کر رہ گئی تھی۔
وہ ماہ نور سے کچھ بھی کہنے اور پوچھنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ ماہ نور ایک بار پھر اپنی پلیٹ کی طرف متوجہ ہوگئی تھی اور تاجور کی بھوک اُڑ گئی تھی۔ دونوں کے درمیان ایک لمبی خاموشی آئی تھی پھر تاجور نے اس سے کہا۔



”تمہارا نام اس کے نکاح نامے میں لکھا ہے تین بار قبول کیا ہے اُس نے تمہیں ۔ بھول بھی جائے تو بھی تم یاد رہوگی اُسے۔ ہم مردوں کے ان چھوٹے چھوٹے معاشقوں کو دل پر نہیں لیتے۔” تاجور نے بظاہر بڑے بے فکرانہ اور بے پرواہ انداز میں اُسے تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔
ماہ نور چاہنے کے باوجود اُسے کہہ نہیں سکی کہ موتیا کا نام مراد کے دل پر لکھا ہے اور اس دل کو نکاح نامے کا کوئی پاس ہی نہیں تھا۔ پر وہ اس گھر میں دوسرے ہی دن تاجور سے بحث کیا کرتی۔ وہ فرمانبرداری کی صفت پر چنی گئی تھی اور اُسے یہاں فرمانبرداری ہی دکھانی تھی۔
ملازمہ پانی کا ایک نیا جگ لے کر آگئی تھی۔ اُس نے گلاس میں پانی ڈال کر تاجور کو اطلاع دیتے ہوئے پانی کا نیا گلاس پیش کیا ۔ تاجور نے وہ گلاس ماہ نور کی طرف بڑھاتے ہوئے اپنے لئے ایک نئے گلاس میں پانی ڈالا اور پانی کا پہلا گھونٹ لیتے ہی وہ بلبلائی تھی۔
”کہاں سے آیا ہے یہ پانی ؟ یہ بھی کڑوا ہے۔” اس نے ملازمہ پر چڑھائی کرتے ہوئے کہا تھا۔
”جی یہ تو گاؤں کے کنویں سے آیا ہے۔”ملازمہ نے ڈر کر کہا تھا۔
”گاؤں کے کنویں کا پانی تو ہمیشہ میٹھا تھا کڑوا کیسے ہوگیا؟” تاجور کو یقین نہیں آیا تھا کہ وہ گاؤں کے کنویں کا پانی تھا۔ تب ہی ماہ نور نے بھی گلاس اُٹھاکر پانی کا ایک گھونٹ پیااور اُس نے جیسے حیران ہوکر تاجور کو دیکھا تھا۔
”تجھے بھی کڑوا لگا ہے نا؟ دیکھا میں کہہ رہی تھی جھوٹ بول رہے ہیں یہ نوکر یہیں کہیں سے لے آئے ہیں پانی۔”تاجور نے اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اندازہ لگایا تھا اور بولنا شروع کردیا تھا۔
”پھوپھو پانی میٹھا ہے۔ ” ماہ نور کے جملے پر تاجور ٹھٹکی تھی اس نے حیران ہوکر اس کی شکل دیکھی پھر ملازمہ کی ، جس نے ماہ نور کے جملے پر جیسے ہمت باندھتے ہوئے کہا تھا۔
”جی چوہدرائن جی پانی میٹھا ہے میں بھی پی کر آئی ہوں ابھی۔” تاجور نے عجیب سے انداز میں گلاس اُٹھا کر ایک گھونٹ اور لیا۔ پانی کی کڑواہٹ ویسی ہی تھی۔


”آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا چوہدرائن جی کہیں چھوٹے چوہدری کی بارات کی تھکن کی وجہ سے طبیعت نہ خراب ہوگئی ہو۔ زبان کا ذائقہ اسی لئے خراب نہ ہوگیا ہو۔” ملازمہ نے تشویش سے کہا تھا۔ تاجور نے کچھ بھی جواب نہیں دیا وہ پانی کے گھونٹ اسی طرح لینے لگی۔ پانی کڑوا تھا وہ قسم اٹھا کے کہہ سکتی تھی پر اب سب کو میٹھا لگ رہا تھا تو وہ یہ کیسے کہتی رہتی۔
”ہاں شاید تھکن ہی کی وجہ سے ہے۔ کام بھی تو اتنا کیا ہے۔ اتنی جلدی شادی کی تیاری کرنا کوئی آسان کام تھوڑی تھا۔ ” تاجور نے ملازمہ کی بات پر یقین کرلیا تھا ۔ پر کچھ تھا جو اُس کے ذہن میں کہیں اٹکا تھا۔
اس کا باپ ہمیشہ اُسے کہا کرتا تھاکہ کسی پر کیا جانے والا ظلم جب اللہ کو بہت نا پسند آئے تو وہ کوئی نہ کوئی نعمت واپس لے لیتا ہے۔ پتا نہیں اُسے اپنے باپ کی یہ بات اس وقت کیوں یاد آئی تھی۔ تاجور نے جیسے خود کو ہی ڈانٹا۔ نہ وہ ظالم تھی نہ اُس سے کوئی نعمت چھینی گئی تھی۔ ایک کنویں کا پانی کڑوا ہوگیا تو ہزار کنویں کھودے جاسکتے تھے۔ پانی میں گڑ ملا کر میٹھا کیا جاسکتا تھا۔ اس نے جیسے خود کو تسلی دی تھی۔ اور اس پانی سے اپنا دھیان ہٹانے کی کوشش کی تھی جو اب بھی آدھے گلاس میں اس کے سامنے پڑا تھا۔
٭…٭…٭


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!