Blog

Dana-Pani-Ep-7

”ابا جی مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں آپ؟” تاجور نے باپ سے بالآخر پوچھا تھا، جس نے پہلی بار اُس کے آنے پر اُٹھ کر اُس کا استقبال کیا تھا نہ اُس کا سرماتھا چوما تھا۔
اُس نے صرف بیٹھے بیٹھے اُس کے سلام کا جواب دیا تھا اور پھر تسبیح کے دانے گراتا ہوا بس اُسے دیکھنے لگ گیاتھا اور اُس کے دیکھنے کے انداز نے تاجو رکو پریشان کردیا تھا۔ وہ بیٹے اور بہو کے ساتھ اُن سے ملنے آئی تھی مگر مراد اُنہیں چھوڑ کر واپس چلا گیا تھا اورتاجور کے اصرار پر بھی رُکا نہیں اور اب تاجور اکیلے کمرے میں بیٹھی اپنے باپ کی کاٹ دار نظروں کا سامنا کررہی تھی۔



”تونے تاجور آج میرا سر اُن کے سامنے نیچا کردیا جو ہمارے پاس دُعائیں کروانے آتے ہیں۔ تونے آج مجھے اُن کے سامنے ہاتھ جوڑنے پر مجبور کردیا۔” پیر ابراہیم بالآخر لمبی خاموشی کے بعد بولے تھے۔
تاجور کا ماتھا ٹھنک گیا تھا۔ نام نہ لینے کے باوجود جیسے اُسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ کس کی بات کررہے تھے اور وہ بے چین ہوئی تھی اُس کے باپ نے آخر ان کے سامنے کیوں ہاتھ باندھے تھے کس لئے۔ اُس کا خون کھولنے لگا تھا۔ اُن کی جرأت کیسے ہوئی کہ وہ اُس کے باپ کے پاس اُس کی شکایت لے کر پہنچے تھے۔
”آپ کس کی بات کررہے ہیں بابا جان؟” اُس نے بظاہر انجان بننے کی کوشش کی تھی۔
”میں موتیا کی بات کررہا ہوں۔ اُس کے ماں باپ لائے تھے اُسے میرے پاس اور جو کچھ تم نے کیا ہے، وہ دہرایا تھا انہوں نے میرے سامنے۔ یہ اتنا سخت دل تو نے کہاں سے لے لیا تاجور؟” پیر ابراہیم نے دل گرفتگی سے کہا۔
”اُن کی جرأت کیسے ہوئی کہ وہ آپ کے پاس آکر میری شکایت کریں !” تاجور غضبناک ہوئی تھی اور پیر ابراہیم نے کہا تھا۔
”یہ گھمنڈ، تکبر تجھے تباہ کردے گا تاجور! تیرے خاندان کو تباہ کردے گا۔”
”بابا جان آپ اُن لوگوں کی حمایت نہ کریں! آپ ہمیشہ میرے خلاف اُن کی حمایت کرتے ہیں۔” اُس نے اُسی بدتمیزی سے کہا تھا۔
”تیرے خلاف نہیں کھڑا …ظالم کے خلاف کھڑا ہوں ۔” تاجور ایک لمحہ کے لئے بول نہیں سکی پھر جیسے شعلہ جوالہ بن کر بولی ۔
”بابا جان میں ظالم ہوں؟ ظلم اُس کی بیٹی نے کیا میرے بیٹے کو ورغلایا، باغی بنایا ، مجھ سے چھیننے کی کوشش کی! اور ظالم میں ہوں؟”
”تم کیوں بارات لے کر اُن کو ذلیل کرنے اُن کی گلی سے گزری تھی؟ مجھے اگر اُس دن پتا چل جاتا کہ تم بارات اُن کے گھر کے سامنے سے گزار کر لائی ہوتو میں ماہ نور کے بجائے موتیا کا نکاح ہی پڑھاتا مراد کے ساتھ۔” تاجور یک دم اُٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
”آپ کیا چاہتے ہیں مجھ سے اب؟”
”تو جاکر موتیا کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ۔ میرے جڑے ہوئے ہاتھوں پر انہوں نے مجھے معاف نہیں کیا۔” تاجور کا دماغ گھوم گیا۔
”بابا جان میں اور کمی کمینوں کے سامنے جاکر ہاتھ جوڑوں یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔”
”تیرا غرور میرے خاندان کی گدّی لے جائے گا تاجور!” تاجور نے باپ کا چہرہ بے یقینی سے دیکھا ۔ وہ بہت بڑا جملہ بول رہے تھے۔
”گدّی ہمارے خاندان سے نکلے گی تو کہاں جائے گی ولایت؟ اُس ماشکی کی بیٹی کے پاس؟” تاجور نے باپ کا مذاق اُڑایا تھا۔
”آپ کا مطلب ہے آپ کی بجائے لوگ اُس کے آستانے پر آکر دُعائیں مانگیں گے؟ ایسا نہیں ہوسکتا بابا جان آپ ولایت ہوتے ہوئے بھی ایسی بات کررہے ہیں۔ آپ سے زیادہ تو میں جانتی ہوں روحانیت کو۔” تاجور نے کہا تھا۔



”تو روحانیت کو جانتی ہے، رب کو نہیں جانتی۔ تیرا غرور تاجور تیرے خاندان کو کھاگیا۔” وہ کہتے ہوئے وہاں سے بے حد ناراضی کے عالم میں نکل گئے تھے اور وہ صدمے کی حالت میں وہاں کھڑی رہ گئی تھی۔
اُس کا باپ اُسے کیا کہہ کر گیا تھا اور اتنی بڑی بات… تاجور کا دل کسی نے مٹھی میں مسلا تھا۔ ایک لمحہ کے لئے اُسے بہت ہیبت آئی تھی مگر پھر اُس کی ضداور غرور نے اُسے آکٹوپس کی طرح اپنے شکنجے میں لے لیا۔
”کسی کمی کمین کے سامنے تاجور نہیں جھکے گی بابا جان۔” اُس نے جیسے دل میں فیصلہ کرلیا تھا۔
٭…٭…٭



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!