Blog

Dana-Pani-Ep-7

”آج میں نے موتیا کو دیکھا ۔” اپنے کمرے میں جوتے اُتارتے مراد کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔
اُس نے برق رفتاری سے پلٹ کر ماہ نور کو دیکھا تھا جو سنگھار میز کے سامنے بیٹھی ہوئی اپنے زیورات اُتارتی ہوئی آئینے میں مراد کو دیکھ رہی تھی۔ اُس کا خیال تھا مراد اب اُس سے پوچھے گا کہ کہاں یا ناراض ہوکر کہے گا کہ کیوں ۔ مراد نے دونوں میں سے کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ اُس نے لحظ بھر کے لئے ماہ نور کو دیکھ کر دوبارہ اپنے جوتے اتارنے شروع کردیئے تھے۔



”وہ بیمار لگ رہی تھی دادا جان کے پاس دُعا کروانے آئی تھی۔” ماہ نور پھر بھی کہے بغیر نہیں رہ سکی تھی۔
مراد پھر ٹھٹکا تھا پھر اس بار اس نے ماہ نور کو پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔ ماہ نور کو حیرت ہوئی محبوبہ کا ذکر ہوا اور عاشق اتنا بے نیاز۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا وہ مزید کیا کہے اس کی مشکل مراد نے آسان کردی تھی۔
”آج پہلی اور آخری بات موتیا کا نام تمہاری زبان پر آیا ہے۔ دوبارہ کبھی میرے سامنے موتیا کا نام بھی مت لینا۔” جوتے اُتارنے کے بعد وہ اُٹھ کر کھڑا ہوا تھا اور سرد مہری کے ساتھ اُسے کہتے ہوئے کمرے کے ساتھ ملحقہ باتھ روم میں چلا گیا تھا۔
”میں نام نہ لوں اور تم نام کا کلمہ پڑھتے رہو!” ماہ نور مدھم آواز میں بڑبڑائی تھی۔
اُسے لگا تھا مراد نے کسی مکھی کی طرح اُسے اپنے اور موتیا کے بیچ سے نکال دیا تھا۔ پر وہ کیڑا مکوڑا نہیں تھی وہ انسان تھی جلنے بجھے والا، غم کرنے والا، یاد رکھنے والا، کھوجنے والا… کیا ہواتھا مراد اور موتیا کے بیچ کہ مراد نے اُسے اپنی زندگی سے نکال پھینکا تھا اور صرف نکالا نہیں تھا کسی اور کو اُس کی جگہ بھی دے دی تھی ۔ ماہ نور کو اب یہ کھوجنا تھا اور ہر قیمت پر کھوجنا تھا۔
٭…٭…٭



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!