Blog

Dana-Pani-Ep-7

مراد اپنے کمرے میں گیا تھا جو موتیے اور گلابوں سے بھرا ہوا اور سجا ہوا تھا۔ اُس وسیع وعریض کمرے کی فضا اُن ہی دونوں پھولوں کی خوشبو سے مہک رہی تھی اور مراد صرف موتیا کی خوشبو ہی محسوس کررہا تھا۔ وہ اُس کے دل و دماغ پر نہیں حواس پر سوار تھی۔ وہ موتیا کو دیکھتا یا موتیا کے پھول کو، اُس کی آنکھوں کے سامنے بس ایک ہی چہرہ آتا تھا جو اب اُس وقت بھی آگیا تھا جب وہ اپنے حجلۂ عروسی میں داخل ہوا تھا، اور اُس نے سُرخ لباس میں ملبوس ماہ نور کو اپنے بستر پر براجمان دیکھا تھا۔ کسی چھت پر کھڑی سُرخ دوپٹہ اوڑھے موتیا کا ٹیکہ سجایا چہرہ اُس کی آنکھوں کے سامنے جھلملایا تھا اور بس جھلملاتا ہی گیا تھا۔
پتہ نہیں کہاں کہاں سے درد اُٹھا تھا اور کہاں سے ہوک۔ مراد کا دل چاہا تھا وہ اُلٹے قدموں اُس کمرے سے بھاگ جائے۔ وہ جوکر بیٹھا تھا اُس کا بھیانک پن اُس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا تھا۔ اُس نے آنکھیں بند کر کے اُس کے چہرے کو جھٹکا تھا۔ سانس روک کر جیسے اپنے آپ کو اُس کے تصویر سے آزاد کیا تھا۔ پھر دوبارہ بستر پر بیٹھی اُس دُلہن کو دیکھا تھا جس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اچھا یا بُرا جو بھی فیصلہ تھا، مراد کا تھا۔ اُس کا اپنا۔ پھر اب ماتم کرنے کا کیا فائدہ۔ اُس نے جیسے خود کو خود ہی پھٹکاراتھا۔



”وہ بے وفا تھی، وہ بدکردار تھی، و ہ تیرے لائق نہیں تھی مراد تو کیوں پچھتاووں میں پڑرہا ہے۔”
اُس نے جیسے خود کو سب کچھ یاد دلایا۔ کنویں پر اُس رات کا وہ منظر، موتیا کے ساتھ کھڑا سعید۔ وہ بکھری چوڑیاں، وہ اُڑتا دوپٹہ۔ دل ایک لمحہ کے لئے گونگا ہوا تھا۔ دماغ نے ایک بار پھر مراد کی پیٹھ تھپکی تھی۔
”اچھا کیا جو بھی کیا… اچھا کیا جو بھی کیا۔”
وہ تکرار اُس کے کانوں میں ہونے لگی تھی۔ موتیا کا چہرہ اُس تکرار میں غائب ہوگیا تھا۔ مراد نے کمرے میں جگ میں پڑا پانی گلاس میں ڈال کر پیا، اپنی قمیض کی جیب سے وہ کنگن نکالے جو اُس کی ماں نے ماہ نور کے لئے دیئے تھے اور وہ ماہ نور کے پاس آکر بستر پر بیٹھ گیا تھا جو گھونگھٹ کاڑھے دھڑکتے دل کے ساتھ اپنے جیون ساتھی سے اپنی پہلی مدح سرائی کی منتظر تھی۔ اُسے بھی یقین تھا ، اُس کا حسن اس طرح سج دھج کر مراد کے سامنے آئے گا تو اُس کی نظروں کو تو باندھ ہی لے گا۔ دل کا کیا ہے، وہ تو آہستہ آہستہ بدل ہی جاتاہے۔
اُس نے موتیا کے بارے میں سُنا تھا۔ اُس نے یہ بھی سُنا تھا کہ مراد نے اپنی مرضی سے اُسے چھوڑا تھا۔ ماہ نور کو مراد پسند تھا۔ اُسے کسی موتیا، چمپا، چنبیلی میں دلچسپی تھی نہ پروا۔ وہ تو پورے خاندان کی مرضی سے اُس مرد کے ” نکاح” میں آئی تھی جس کو اُس نے چاہا تھا۔ پھر اس سے کیا فرق پڑتا تھا کہ اُس کی زندگی میں پہلے کوئی موتیا تھی یا نہیں۔ وہ اب تو صرف اُس کا ہوا تھا اور اپنی مرضی سے ہوا تھا۔ ماہ نور کے لئے اتنا کافی تھا۔
مراد نے اُس کا گھونگھٹ اُٹھائے بغیر اُس کی کلائیوں میں وہ کنگن ڈالے تھے اور کوئی لفظ ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی جن کی مدد سے وہ اُس سے بات شروع کرتا۔ وہ موتیا ہوتی تو اُسے لفظ ڈھونڈنے نہیں پڑتے۔ وہ ماہ نور تھی اور ماہ نور سے مراد کیا بات کرتا۔ وہ چپ اُس کے سامنے بیٹھا رہا اور ماہ نور گھونگھٹ میں منہ چھپائے سر جُھکائے اُس کے بولنے کا انتظار کرتی رہی۔
بہت دیر کے بعد مراد نے بالآخر اُس کا گھونگھٹ اُٹھایا تھا اور اُس کے چہرے پر پہلی نظر ڈالتے ہی اُس کے منہ سے بے اختیار ” موتیا!” نکلا تھا۔چھت پر کھڑی سرخ دوپٹے والا وہ چہرہ ایک بار پھر وہاں آگیا تھا اور اس بار وہ ماہ نور اور اُس کے بیچ آگیا تھا۔مراد مبہوت اُس چہرے کو دیکھتا رہا اور ماہ نور نے پلکیں اُٹھا کر بھی مراد کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ موتیا کے لفظ نے اُسے بُت بنادیا تھا۔ مراد اب اپنی انگلیوں سے اُس کا چہرہ چھورہا تھا جیسے کوئی بت تراش اپنے سب سے دلپسند شاہکار کو چھوتاہے۔ وہ اُس کے ماتھے کے ٹیکے کے چاند کو اپنی انگلی سے ہلکورے دے رہا تھا۔ اُس کے ناک کی بالی کے سُرخ موتی کو اُس کے سرخ ہونٹوں سے چھونے سے ہٹا رہا تھا۔ اس کے کانوں کے جھمکوں کو جھلا رہا تھا اور ماہ نور نے تب پہلی بار مراد کا چہرہ دیکھا تھا اور اس کی آنکھوں میں اُسے موتیا نظر آئی تھی اپنا وجود نہیں ۔ مراد کی آنکھوں کا والہانہ پن اس کے لئے نہیں تھا۔ وہ ایک بار پھر اس کے کانوں میں سرگوشی کررہا تھا۔ موتیا۔ اور وہ لمحہ تھا جب ماہ نور نے چاہا تھا کاش وہ موتیا ہی ہوتی یا وہ مراد نہ ہوتا۔
٭…٭…٭



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!