تاجور کو وہ خوشبو یاد رہی تھی اور جادو ٹونے کے حوالے سے اپنا وہم بھی۔ اُس نے مراد کا بیٹا پیدا ہونے پر گاؤں میں ڈھول والوں کے ساتھ مٹھائی کے ٹوکرے بھیج کر پورے گاؤں میں پھرنے کا اُنہیں کہا تھا اور اُنہیں خاص طور پر گامو کی گلی سے گزرنے کا کہا تھا۔
گامو کی گلی میں تقریباً ایک سال بعد وہ تماشہ پھر دُہرایا گیا تھا۔ ڈھولوں کی تھاپ پر گھنگھرو باندھ کر ناچتے خواجہ سرا گاؤں والوں کو پکڑ پکڑ کر مٹھائیاں کھلاتے اور گانے گاتے رہے جس میں چوہدریوں کی اگلی نسل کی زندگی اور عروج کی دُعائیں تھیں۔
گامو اللہ وسائی اور موتیا کے ساتھ اپنے گھر کے دروازے بند کرکے بیٹھا باہر سے آنے والی اُن آوازوں اور ڈھول تاشوں کو سنتا ہوا موتیا کا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ شور بڑی دیر تک اُن کے گھر کے باہر برپا رہا۔
”اللہ کے گھر انصاف نہیں ہے اللہ وسائی۔”
اس رات اس نے زندگی میں پلی بار اللہ وسائی سے ”کفر” کی بات کہی تھی اور اللہ وسائی اُسے جواباً یہ بھی نہیں کہہ سکی کہ گامو کفر نہ بول۔
”ہاں گامو… یا پھر ہم بھی اتنے گناہ گار ہیں کہ اللہ کا انصاف ہمارے لئے یہی ہے۔” اُس نے جواباً گامو سے کہا تھا۔
”تو گناہ گاروں کو تو مرجانا چاہیے… چل اللہ وسائی ہم مرجاتے ہیں۔” اللہ وسائی نے بے یقینی سے اُسے دیکھا تھا۔
”تو اور میں؟” اُس نے اب بھی شوہر سے یہ نہیں کہا تھا کہ تو کیسی باتیں کررہا ہے۔
”نہیں موتیا بھی۔”
اللہ وسائی اور وہ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے رہے پھر اللہ وسائی نے اُس سے کہا۔
”موتیا کوکون مارے گا؟” گامو اس کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اُس نے کہا۔
”تُو!”
٭…٭…٭