Blog

Dana-Pani-Ep-2

”بھلیے لوکے تجھے نیند کیوں نہیں آرہی؟” گامو نے اُس رات اللہ وسائی کو کروٹیں لیتے دیکھ کر کہا تھا ۔ بارش کی وجہ سے وہ اُس رات کمرے میں سونے کے لئے لیٹے تھے۔
”میں سوچتی ہوں گامو پیر صاحب کے پاس چلتے ہیں۔ موتیا کے رشتے کی دُعا کروانے۔” گامو اللہ وسائی کی بات پر یک دم اُٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔



”آدھی رات کو تجھے موتیا کا رشتہ کیوں یاد آگیا؟” اللہ وسائی بھی اُٹھ کر بیٹھ گئی تھی ۔ کچھ دیر کے لئے وہ چپ بیٹھی ہی رہی پھر اُس نے جیسے سب کچھ صاف صاف بتانے کا فیصلہ کرلیا۔
”خواب دیکھتی ہے وہ!”
”خواب؟” گامو اُلجھا۔
”چوہدری مراد کو دیکھتی ہے وہ خواب میں۔” گامو سانس نہیں لے سکا۔
”چوہدری مراد؟”
”کئی سالوں سے دیکھ رہی ہے۔ مجھے کہتی تھی خوابوں میں کوئی نظر آتا ہے ۔ میں ہنس کے ٹال دیتی تھی اور کہتی تھی کہ تیری عمر میں سب کو ہی خوابوں میں ایسے سوہنے منڈے نظر آتے ہیں یہ کون سی خاص بات ہے۔ پر وہ ناراض ہوکر کہتی تھی کہ ایسی بات نہیں ہے۔ اور آج تو نے چوہدری مراد کو حویلی چھوڑا ہے تو موتیا نے مجھے بتایا ہے کہ وہ وہی لڑکا ہے جسے وہ اتنے سالوں سے خوابوں میں دیکھ رہی تھی۔” اللہ وسائی بتاتی چلی گئی تھی۔
گامو چپ چاپ گنگ بیٹھا اُس کو دیکھ رہا تھا۔ وہ چپ ہوئی تب بھی گامو کو کوئی جواب نہیں آیا۔ پھر لمبی خاموشی کے بعد اُس نے اللہ وسائی سے کہا۔
”جھوٹ تو کبھی نہیں بولا موتیا نے۔”
”ہاں پر اللہ کرے یہ جھوٹ ہی ہو۔” اللہ وسائی نے عجیب سے انداز میں کہا۔
”تجھے یاد ہے نا جب سکول میں پڑھانے کے لئے موتیا کو لے کر گئے تھے تو چوہدرائن نے کتنا ذلیل کیا تھا مجھے کہ تیری جرأت کیسے ہوئی کہ تو اُس اسکول میں موتیا کو بھیج رہی ہے جہاں میرا بیٹا پڑھے گااور تیری بیٹی نے میرے بیٹے کو زمین پر بٹھادیا ۔ وہ کوئی کمی کمین تھا۔ تو اپنی اوقات بھول گئی ہے؟” اللہ وسائی کو تاجور کا ایک ایک جملہ یاد تھا۔
”ہاں اور پھرہم نے اگلے دن موتیا کو ساتھ والے گاؤں کے اسکول میں داخل کروادیا تھا جہاں روز پانچ میل پیدل چل کر اُس کو چھوڑنے اور لانے کے لئے جاتے تھے۔”گامو کو یاد آیا وہ کس طرح موتیا کوکندھوں پر بیٹھا کر لے کر جاتا تھا اور اللہ وسائی موتیا کا بستہ اُٹھائے ساتھ ہوتی تھی۔
”ہاں اور اگلے دن اسکول کی چھت گرگئی تھی چوہدری مراد پر… اُس کی قسمت تھی کہ وہ زخمی ہوا پر بچ گیا۔” اللہ وسائی کو پتہ نہیں کیا یاد آیا۔



”ہاں شکر ہے اللہ میرے رب سوہنے کا چوہدریوں کی نسل کو کچھ نہیں ہوا ۔ نہ ہی کسی اور بچے کو ۔” گامو کو خیال آیا۔
”اور پھر چوہدری شجاع نے مجھے بلاکے معافی مانگی تھی دانوں کی بوری دی تھی اور کہا تھا کہ میں موتیا کو واپس لے آؤں۔”
” اور میں نہیں مانی تھی۔” اللہ وسائی نے یاد دلایا۔
”ہاں تو توہے ہی شروع سے ضدی۔” گامو ہنس پڑا تھا۔
”پر اُس کے بعد چوہدرائن نے تجھے جھڑکنا کم کردیا تھا۔”
”ہاں پر وہ آج بھی تھتھی اور کمی کمین ہی کہتی ہے مجھے۔” اللہ وسائی نے جیسے یاد دلایا۔
”کمی کمین تو ہیں نا ہم… اس کا کیا غصہ کرنا دانے والا نہیں بنایا رب سوہنے نے… یہ تو اس کی تقسیم ہے۔” گامو اب بھی مطمئن تھا۔
”رب تقسیم نہیں کرتا جوڑتا ہے پہچان کرواتا ہے۔ پر گامو میں نہیں چاہتی میں چوہدرائن سے دوبارہ کچھ سنوں۔” اللہ وسائی نے کہا اس سے پہلے کہ گامو کچھ کہتا۔ باہر دروازے کو کسی نے زور سے سے بجایا تھا۔ وہ دونوں چونک گئے۔
”یہ اتنی رات کو کون آگیا۔ ذرا دیکھوں میں۔” گامو کہتے ہوئے باہر نکل گیا۔ اللہ وسائی بھی اُس کے پیچھے گئی۔
”وہ چوہدری صاحب کے بیٹے کو بہت بخار ہے انہوں نے تمہاری بیٹی کوبلوانے کے لئے بھیجا ہے کہ وہ ڈاکٹر ہے کوئی دوا دارو کردے۔”
دروازہ کھلتے ہی گامو نے باہر ایک تانگے کے ساتھ چوہدریوں کے دو ملازم دیکھے تھے ۔ ایک بھی لفظ کہے بغیر گامو اندر پلٹا تھا مگر اُسے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ وہاں پیچھے اللہ وسائی کے ساتھ موتیا کھڑی تھی وہ بھی شاید رات گئے بجنے والے دروازے کی وجہ جاننے آئی تھی۔
”میں فرسٹ ایڈ باکس لے لوں ابا۔” موتیا نے گامو کے کچھ کہنے سے پہلے ہی کہا تھا اور اندر چلی گئی تھی۔ اللہ وسائی اورگامو نے عجیب نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا پھر گامو نے ہاتھ اُٹھا کر مدھم آواز میں کہا۔
”جو رب سوہنے کی مرضی۔ ”



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!