Blog

Dana-Pani-Ep-2

”تو کتنا جھلّا ہے گامو… کل سارا دن اور ساری رات تو بارش برستی رہی ہے۔ گاؤں کی گلیاں بھی گیلی ہیں اور تو پھر مشک بھرکے چل پڑا ہے۔” صبح سویرے گاؤں میں کسی نے گامو کو کنویں پر کھڑے دیکھا تھا اور ہنس کے کہا تھا۔
”لو بھلا گلیاں گیلی ہیں نا… گھڑے تو خالی ہیں نا گاؤں والوں کے… وہ کونسی بارش بھرے گی ۔ وہ گامو کی مشک کا ہی انتظار کرتے ہیں ۔”گامو نے کہا تھا اور ہمیشہ کی طرح مشک بھر کے سب سے پہلے حویلی کی طرف چل پڑا تھا۔
اُس دن حویلی میں اُس کا سامنا صبح سویرے برآمدے میں پھرتے ہوئے مراد سے ہوگیا تھا اور گامو اُسے بھلا چنگا دیکھ کے حیران ہونے سے زیادہ خوش ہوا تھا۔
”آپ تو بالکل ٹھیک ہوگئے ہیں چھوٹے چوہدری جی اللہ کی مہربانی سے۔” گامو نے سلام دُعا کے بعد کہا۔



مراد کچھ حیران ہوا۔
”آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں بیمار تھا؟” گامو کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ وہاں اپنے موتیا کے ساتھ رات آنے کا ذکر کرے یا نہ کرے۔ اگر مراد کو اُس کا آنا یاد نہیں تھا تو شاید ذکر نہ کرنا ہی بہتر تھا۔ گامو نے سوچا تھا۔
”میں نے اُدھر کنویں پر گاؤں کے کسی ملازم سے سنا ہے۔”گامو نے جیسے ٹالتے ہوئے کہا تھا اور حویلی کے باورچی خانے میں پانی ڈالنے چلا گیا ۔ وہ جب پانی بھر کے واپس آیا تو بھی مراد وہیں بیٹھا ہوا تھا۔
”گامو چاچا… کل تانگے میں دو لڑکیاں تھیں وہ کون تھیں؟” مشک کامنہ بند کرتے ہوئے گامو ٹھٹکا تھا اندر سے آتی تاجور وہیں رُک گئی تھی۔ اُس نے مراد کا سوال سن لیا تھا اور اُس کے جیسے دل کو ہاتھ پڑا تھا۔ وہ گامو کا جواب سننا چاہتی تھی اور اُس کا دل کہہ رہا تھا ایک موتیا تھی۔
”پتہ نہیں میں نے دھیان نہیں کیا جی… آپ کے ساتھ آگے بیٹھا ہوا تھا پیچھے والوں پر غور نہیں کیا میں نے۔”
گامو نے جھوٹ بولنے میں اپنی عزت جانی تھی۔ وہ اپنے منہ سے اپنی بیٹی کا پتہ کیسے بتاتا پر وہ حیران تھا مراد کو اُس کی بیٹی یاد نہیں وہ تو رات کو اُس کا علاج کرنے آئی تھی۔
”ٹھیک ہے۔” مراد نے مزید نہیں کُریدا اور گامو کو جانے دیا۔
اُسے یقین تھا گامو جھوٹ بول رہا تھا مگر وہ گامو کے جھوٹ کا پردہ رکھنا چاہتا تھا۔ گامو مزید کچھ کہے بغیر سلام کرتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا۔
تب ہی تاجور باہر آگئی تھی۔



”تم کیوں صبح سویرے باہر نکل کے بیٹھ گئے ہو؟” اُس نے آتے ہی مراد کو ڈانٹا تھا۔
”ہاں بس نیند نہیں آرہی تھی مجھے اور بخار اُترا ہے تو کمرے میں عجیب سی گھٹن محسوس ہورہی تھی اس لئے باہر آکر بیٹھ گیا۔ ”مراد نے مسکراتے ہوئے ماں سے کہا جس نے پاس آتے ہی اُس کی کلائی اورماتھا چھو کر جیسے اُس کے ٹھیک ہونے کی تصدیق کی تھی اور جیسے مطمئن ہوئی۔
”تم گامو سے کن لڑکیوں کا پوچھ رہے تھے؟” اس کے اگلے سوال پر مراد بُری طرح سے گڑبڑایا۔
”اوہ اچھا وہ ہاں وہ ایسے ہی پوچھ رہا تھا۔تانگے میں دو تین لڑکیاں تھیں تو میں نے سوچا اُن کے بارے میں پوچھوں آخر میرے ہی گاؤں کی ہیں۔” مراد کے پاس کوئی مضبوط وجہ نہیں تھی اور اُس کی گفتگو میں یہ بات بُری طرح نظر آئی تھی۔
”ایک لڑکی گوری چٹی ، لمبے بالوں والی ہوگی… موٹی موٹی کالی آنکھیں تیکھی ناک۔” مراد نے حیرانی سے ماں کو دیکھا پھر ہنسا۔
”آپ تو وہاں تھیں ہی نہیں آپ کو کیسے پتہ وہ کیسی دکھتی ہوں گی؟”
”کیا کوئی ایسی تھی؟” مراد نے ماں کو ٹالا۔
”پتہ نہیں امی میں نے اتنا غور سے تھوڑی دیکھا تھا اُن کو میں تو ویسے ہی پوچھ رہا تھا گامو چاچا سے… اچھا یہ بتائیں نانا جان کی طرف کب چلنا ہے؟” اُس نے کہتے ہوئے ساتھ ہی بات بدل دی تھی۔ وہ ماں کے سوالوں سے زیادہ انداز پر پریشان ہوا تھا۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!