Blog

Dana-Pani-Ep-2

کھل کے بہتے پانی میں ڈوبے موتیا کے خوبصورت پاؤں کسی جیولر کی دُکان کے شیشے میں سجے ہیرے جواہرات جیسے لگ رہے تھے۔ بتول نے بڑی حسرت سے اُن نازک دو دھیا پاؤں کو دیکھا جن پر اُس کی نظر ہمیشہ ہی اٹک جاتی تھی اور پھر اٹکی ہی رہتی تھی۔
”پھر کیا ہوا بتول؟”
موتیا نے اب ہاتھ سے کھل کا پانی مٹھی میں لے کر بتول پر پھینکا تھا اور جیسے اُس کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ وہ دونوں کنویں پر اُس جگہ آکر بیٹھی ہوئی تھیں جہاں گاؤں کی عورتیں کپڑے دھونے آتی تھیں۔ چلتے ہوئے رہٹ کو کھینچتے بیل دو وقت باری باری کنویں سے کھیتوں کے لئے پانی نکالتے تھے اور جب تک وہ رہٹ چلتا رہتا۔ عورتیں وقفے وقفے سے وہاں آکر کپڑے دھوتی رہتیں۔



”کیا ہونا تھا؟” بتول نے بھی جیسے بدلہ لیتے ہوئے پانی دونوں ہاتھوں کی بکل میں لے کر اُس پر اُچھالا تھا۔ ‘
‘سنا تو دیا تجھے سب کچھ۔”
وہ اب اپنی چیزیں سمیٹ رہی تھی۔ بالٹی میں گیلے کپڑے او رپھر وہ ڈنڈا جو کپڑوں پر مار مار کے اُس نے کھیس دھوئے تھے۔
”بڑا کمینہ ہوا پھر تو سعید۔”
موتیا نے جیسے بُرا مناتے ہوئے بتول سے کہا تھا جس نے کچھ دیر پہلے اُسے اپنی اور سعید کے درمیان ہونے والی ملاقات کی کہانی سنائی تھی۔ سعید بتول کے چاچے کا بیٹا تھا اور دوبئی میں کام کرتا تھا اور بتول اُس پر مرتی تھی پر وہ ڈرپوک تھا اور ڈرپوک مرد سے پیار پھانسی کا پھندہ گلے میں لٹکا کر لٹکتے رہنے جیسا ہوتا ہے، جب پیروں کے نیچے سے ابھی کسی نے تختہ نہ کھینچا ہو۔
”نہیں وہ کمینہ نہیں ہے ۔ چاچا زیادہ کمینہ ہے۔ وہ بس ڈرپوک ہے۔ ” بتول نے جیسے موتیا کو سعید کا مسئلہ سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”لو تو پھر پیار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟”موتیا قائل نہیں ہوئی تھی۔
”اُس نے تھوڑی پیار کیا تھا وہ تو میرا دماغ خراب ہوا تھا۔ ” بتول نے بڑے اطمینان سے اُسے بتایا۔ موتیا اُس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔
”یعنی بس تو پیار کرتی ہے اتنے سالوں سے… وہ نہیں کرتا؟” اُس نے جیسے مذاق اڑانے والے انداز میں بتول سے کہا تھا۔ اس نے گہرا سانس لے کر موتیا کو دیکھا۔
”جب پہل عورت کی طرف سے ہوئی ہو نا تو پھر ساری عمر یہی سنتی رہتی ہے عورت کہ تجھے ہوا تھا نا پیار میں تو سمجھاتا تھا تجھے… تو بس سعید پیار کرکے بھی اپنا پیار چھپاتا رہتا ہے۔” موتیا کے سر کے اوپر سے اُس کی باتیں گزری تھیں۔
”تو پھر دفع کر سعید کو۔” موتیا نے جیسے کچھ خفا ہوکر کہا۔
بتول قہقہہ مار کر ہنسی۔
”پیار میں دفع کرنا ہی تو مشکل ہوتا ہے۔” وہ اب اپنی قمیض کا وہ گیلا دامن نچوڑ رہی تھی۔
”میں کرتی ہوں سعید سے بات اور اُسے کہتی ہوں کہ یوں لارے نہ لگائے تجھے… آر کر ے یا پار… ماں باپ کو نہیں مناسکتا تو… ” بتول نے موتیا کی بات بیچ میں کاٹی۔



”تو مجھے چھوڑدے … یہ حل مجھے قابل قبول نہیں ہے موتیا اور تجھے ان باتوں کی سمجھ نہیں آنی… تو نے پیار نہیں کیا نا اس لئے۔” بتول اب اپنی بالٹی اُٹھا کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی جس میں کپڑے تھے۔
”میں نے ایسا پیار کرنا بھی نہیں ہے بتول جومجھے خوار کردے… تو پڑھ لکھ لیتی تو آج میرے ساتھ شہر میں ڈاکٹری پڑھتی… دونوں سہیلیاں مزے سے اکٹھے آتی جاتیں ہر جگہ۔” موتیا نے بھی اپنی بالٹی اٹھالی تھی۔ دونوں اب کنویں سے چل پڑی تھیں۔
”بتول کا دل نہیں لگتا موٹی موٹی کتابوں میں… شکر ہے میری ماں میرے پیچھے نہیں پڑی مجھے اُس طرح پڑھانے کے لئے جس طرح چاچا گامو اور چاچی تیرے پیچھے پڑ ے رہتے تھے۔ ” بتول نے بڑے اطمینان سے کہا۔
”وہ تھوڑی پیچھے پڑے رہتے تھے… یہ تو مجھے شوق تھا اور بس انہوں نے شوق پورا کردیا میر ا پڑھانے کا۔”موتیا مسکراتے ہوئے اُسے کہہ رہی تھی۔
وہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے گاؤں آئی تھی ۔ وہ میڈیکل کے تیسرے سال میں تھی۔
”میں ویسے چلوں گی تیرے ساتھ کبھی شہر کے ہاسٹل اور تو مجھے شہر پھرا دینا سارا۔ میں کبھی شہر نہیں تھی۔” اُس نے جیسے موتیا سے کہا تھا۔
”چلو ٹھیک ہے اب کے واپس جاؤں گی تو میرے ساتھ ہی چلنا تم اور ہفتہ دس دن رہ کے آجانا۔”



موتیا بھی فوراً اُسے ساتھ لے جانے پر تیار ہوگئی تھی۔ جھوک جیون میں شکوراں کی دھی بتول اُس کی واحد سہیلی تھی جس کے ساتھ موتیا نے اپنا سارا بچپن گزارا تھا ۔ وہ بتول سے ہر بات کہہ سن لیتی تھی اور یہی حال بتول کا بھی تھا۔ موتیا کے شہر جانے کے بعد بھی وہ جیسے اُس کے واپس چھٹی پر آنے کے لئے دن گنتی رہتی تھی۔ وہ گاؤں کی ہر لڑکی کی طرح موتیا کے حسن پر مرتی تھی پر اُس سے حسد نہیں کرتی تھی یا کم از کم بتول کو یہی لگتا تھا کہ اُسے موتیا سے کبھی حسد نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ اُسے اُس سے اتنا ہی پیار تھا۔
”اچھا سن تجھے اب بھی خواب میں وہ لڑکا نظر آتا ہے؟”
بتول کو یک دم موتیا کے خوابوں میں نظر آنے والا لڑکا یاد آیا۔ جس کا وہ کئی سالوں سے ذکر سنتی آرہی تھی۔ موتیا نے چونک کر اُسے دیکھا اور سرہلایا۔ بتول کے چہرے پر اشتیاق آیا ۔
”اچھا؟ اب کب آیا وہ خواب میں؟” موتیا نے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔
”رات کو۔”
بتول بے اختیار ہنسی اور اُسے چھیڑتے ہوئے کہا۔
” دو دن ہوئے ہیں تجھے واپس گاؤں آئے اور تونے اُسے پھرسے خواب میں دیکھ لیا۔” وہ جیسے اُسے چھیڑ رہی تھی مگر موتیا کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں آئی تھی۔
”اس بار میں نے خواب میں ایک سانپ بھی دیکھا بتول۔” بتول اُس کی بات پر چونکی تھی۔
”سانپ؟” موتیا نے سرہلایا۔
”ایک بہت لمبا، سیاہ ، خوفناک سانپ… کوبرا تھا وہ … اور وہ اُس لڑکے کے اور میرے بیچ کھڑا تھا پھر وہ اُس لڑکے کو کاٹنے گیا تھا اور میں ڈر گئی اور میری آنکھ کھل گئی۔” بتول نے موتیا کا چہرہ دیکھا۔ اُسے موتیا کے خوابوں پر عجیب سا اعتقاد تھا۔ وہ سچے خواب دیکھتی تھی اور جو بھی وہ خواب میں دیکھتی تھی وہ پورا ہوتا تھا اس کی گواہ خود بتول بھی تھی۔
”اللہ خیر کرے موتیا۔ خواب تو اچھا نہیں۔” اُس نے جیسے فکر مند ہوکر کہا تھا۔
”ہاں بُرا خواب ہے میں جانتی ہوں اور مجھے خواب میں یوں بھی محسوس ہوا تھا جیسے وہ سانپ مادہ تھی… ناگن… اور جب اُس نے اُس لڑکے کو کاٹا تو میں چیخ اٹھی تھی۔ ” وہ اب بھی عجیب اُلجھے انداز میں اُسے دھندلکے میں لئے اُس خواب کے آخری لمحوں کے بارے میں بتا رہی تھی۔
”تو صدقہ دے۔” بتول نے بے اختیار کہا۔
”ہاں میں بھی صدقہ ہی دینے کا سوچ رہی ہوں پر یہ سمجھ نہیں آرہی کہ صدقہ دوں کس کا؟ اپنا یا اُس لڑکے کا؟” وہ بڑبڑائی تھی اور بتول اُس کا چہرہ دیکھ کر رہ گئی تھی۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!