Blog

Dana-Pani-Ep-2

ریل گاڑی چھک چھک کرتے ہوئے اُس کے گاؤں کے قریبی اسٹیشن پر رُکی تھی۔ مراد نے اپنا سامان اکھٹا کرنے سے پہلے کھڑکی سے باہر جھانکا تھا۔ پلیٹ فارم پر زیادہ رش نہیں تھا اور ریل گاڑی آدھ گھنٹہ پہلے اسٹیشن پر پہنچ گئی تھی۔ کلائی میں بندھی گھڑی کے ڈائل پر ایک نظر ڈالتے ہوئے وہ اُٹھ کر کھڑ اہوگیا تھا۔ اُس کے پاس زیادہ سامان نہیں تھا جس کی اُسے پریشانی ہوتی ۔ وہاں اُس اسٹیشن پر اُترنے کے لئے کھڑے ہونے والے مسافروں میں سے کوئی بھی پینٹ شرٹ میں ملبوس نہیں تھا۔ وہ سب شلوار قمیض ہی پہنے ہوئے تھے یا پھر لاچا کرتا۔ صرف وہ تھا جو اپنے حلیے اور رکھ رکھاؤ سے دیسی نہیں لگتا تھا اور اسی لئے وہ ریل گاڑی کے اندر سب کی توجہ کا مرکز تھا…اپنا بیگ کندھے پر ڈالے سوٹ کیس دھکیلتے ہوئے وہ ڈبّے کے دروازے تک آگیا تھا اور ڈبّے کے کھلے دروازے سے اُس سے اُس ٹھنڈی ہوا کو جیسے اپنے سانس کے ذریعے اپنے اندر اُتارا تھا جو وہاں چل رہی تھی۔ بادل آسمان کو ڈھک رہے تھے اور پرندے نیچی پرواز کرتے ہوئے جیسے آنے والی بارش کا اعلان کررہے تھے۔ شاید آس پاس کہیں بارش ہورہی تھی کیونکہ ہوا ٹھنڈی تھی اور نم بھی اور تروتازہ کردینے والی بھی۔



ڈبّے کے دروازے میں کھڑے کھڑے اُس نے پلیٹ فارم پر چوہدری شجاع یا اپنی حویلی کے کسی ملازم کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ یہ جاننے کے باوجود کہ وہ اپنے مقررہ وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے پہنچ گیا تھا۔ پلیٹ فارم پر یک دم ہی بھیڑ بڑھی تھی ۔ اُس کے برابر والے ڈبّے میں کوئی بارات تھی جو اب ریل گاڑی سے باجوں گاجوں سے لیس اُتر رہی تھی اور پلیٹ فارم پر اُس بارات کا استقبال کرنے کے لئے بہت سے لوگ تھے اور اُن لوگوں میں مراد کو عورتیں بھی نظر آرہی تھیں جو اُس کے ڈبّے کے سامنے سے گزرتے ہوئے دوسرے ڈبّے کی طرف جارہی تھیں اور مراد وہیں کھڑا نیچے اُترنے سے پہلے جیسے اُن سب کے گزرنے کا انتظار کررہا تھا جن کی وجہ سے اُس کا راستہ بند تھا۔
اپنے ڈبّے کے سامنے سے گزرتے ہوئے لوگوں میں سے مراد نے موتیا کو جب دیکھا تھا اُس وقت وہ تیز ہوا کے جھونکے سے اپنے کرن لپّے والے پیلے دوپٹے کو اوڑھ کر اپنے سر سے ہٹنے سے بچا رہی تھی اور جیسے اُس دوپٹے میں لپٹی لپٹی جارہی تھی۔ اُس روپہلی کرن والے دوپٹے نے اُس کی آنکھوں سے ناک تک کو چھپا رکھا تھا یوں لگتا تھا جیسے وہ گھونگھٹ کاڑھے ہوئی تھی۔ اور پھر ہوا کے ہلکے جھونکے نے جیسے اُس گھونگھٹ کو اڑایا تھا، اور تب مراد نے موتیا کا چہرہ دیکھا تھا۔ ایک گال پر سرمے کے ادھ مٹے ٹیکے کی سیاہی لپٹے جھکی پلکوں والی آنکھیں جو چہرے پر سرک کر اڑتے دوپٹے کے ساتھ کھلی تھیں اور انہوں نے مراد کے لئے حشر برپا کردیا تھا۔ وہ جہاں سے آیا تھا وہاں حسن کا ہر نظارہ وہ کرکے آیا تھا۔ حسین اور سنگین ہر حسن پر کسی نے ُاس کی نگاہ کو اس طرح نہیں باندھا تھا جس طرح وہ اُن چند لمحوں میں بندھی تھی۔ وہ لڑکی جو بھی تھی پلیٹ فارم پر اُن بہت سارے لوگوں کے جھرمٹ میں موتیے کا پھول لگ رہی تھی۔ مراد کو اُس کا چہرہ دیکھتے ہوئے اس کے علاوہ کوئی اور تشبیہ اُس کے لئے نہیں آئی تھی۔
دوپٹہ اب اُس کے ماتھے سے سر تک پہنچ کر اُڑ گیا تھا اور اُس کے بالوں کی لٹیں ہوا سے اڑنے لگی تھیں۔ وہ اپنے ایک ہاتھ کو سر سے اوپر لے جاتے ہوئے اُڑ جانے والے دوپٹے کو پکڑنے کی جدوجہد میں مصروف تھی اور تب ہی مراد نے اُس کی کلائی میں پڑی دھنک رنگ چوڑیاں بھی دیکھی تھیں۔ اور اُس کے گال پر آسمان سے گرتی پہلی بوند بھی۔ وہ بدلیوں سے کسی دھنک کی طرح کھلی نظر آرہی تھی اور گال پر گرتی پہلی بوند کے ساتھ موتیا نے سر سے اڑجانے والے دوپٹے کو پکڑنے کی کوشش کی تھی اور وہ اُس میں ناکام رہی تھی پر اُس نے سر اُٹھا کر آسمان کو خوش اور سرشاری کے ایک عجیب سے عالم میں دیکھا تھا۔ بارش کی اگلی بوند اُس کے ہونٹوں پر ٹپ سے گری تھی اور جیسے اُس نے گر کر اُسے گدگدایا تھا اور موتیا کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی تھی اور اپنا سرسیدھا کرتے ہوئے اُس نے ریل گاڑی کے ڈبّے کے دروازے میں کھڑے اُس مراد کو دیکھا تھا جو اُسے مبہوت ہوکر دیکھ رہا تھا اور وہ ساکت ہوگئی تھی۔ اُن دونوں کی نظریں ملی تھیں۔ وہ اپنا کرن والا دوپٹہ بھول گئی تھی جو اب اُس کے چہرے سے اُتر کر اس کے جسم کے گرد لپٹنا شروع ہوگیا تھا اور بارش کی بوندیں اُس کے چہرے پر ایک کے بعد ایک کرکے گرنا شروع ہوئی تھیں۔ پر موتیا جیسے کسی اور جہاں میں پہنچی ہوئی تھی۔ وہ وہاں کب تھی۔ وہ چہرہ جسے وہ خوابوں سے نکال کر آسمان کے چاند میں لے گئی تھی۔ وہ آج اُس کے سامنے تھا۔ ریل گاڑی کے اُس دروازے کے بیچوں بیچ ایشادہ اور موتیا کو رتی بھر کا شائبہ بھی نہیں تھا کہ یہ وہ نہیں تھا۔ وہ اُس چہرے ہر نقش کو آنکھیں بند کرکے بھی کسی کاغذ پر اُتار سکتی تھی اور یہاں تو وہ خود اُس کے سامنے مجسم کھڑا تھا۔ چند فٹ کے فاصلے پر … صرف چند ہی فٹ کے فاصلے پر اور اُس کی نگاہ بھی اُس پر ویسے ہی مرکوز تھی جیسے موتیا کی۔ اُس لمحے میں اُن دونوں کے لئے اُس پلیٹ فارم سے سب کچھ غائب ہوگیا تھا۔ وہ آس پاس نظر آنے والے سارے لوگ …رہ گئے تھے تو صرف وہ دونوں اور ہوا کے وہ اڑتے ہوئے جھونکے جو اُن کے وجود کو بہلا رہے تھے اور بارش کے وہ قطرے جو ٹپ ٹپ کرکے گرتے ہوئے جیسے محبت کا استقبال کررہے تھے ۔ جو وہاں دبے قدموں آئی تھی اور جیسے سب سے پہلے بارش نے دیکھا تھا اور ہوا نے محسوس کیا تھا۔



”راستہ دینا بھائی۔” کسی نے مراد کو عقب سے ٹہوکا دیا تھا اور وہ ہڑبڑا کر پلٹا تھا وہ کوئی آدمی تھا جو ریل گاڑی سے اُترنے کے لئے اپنے سامان اور خاندان کے ساتھ تھا۔ مراد نے پیچھے ہٹ کر اُنہیں نکلنے کے لئے راستہ دیا تھا اور وہ چند لمحے اُس کے لئے بڑے بھاری تھے۔ وقت کا سیکنڈ سیکنڈ میں ہی گھنٹے میں بدلا تھا اور گھنٹہ بھی صدیوں جیسا۔ وہ خاندان اپنے سامان سمیت گاڑی سے اُتر گیا تھا اور مراد لپک کر دوبارہ گاڑی کے دروازے میں آیا تھا۔ وہاں باہر کوئی نہیں تھا۔ مراد کو لگا تھا پوری دُنیا میں جیسے کوئی تھا ہی نہیں اُس ایک چہرے کے غائب ہونے نے جیسے مراد کے لئے ہر شے کو غائب کردیا تھا۔ بے قراری کے عالم میں اُس نے دروازے کے دائیں بائیں لگے ڈنڈوں کو پکڑتے ہوئے جیسے لٹک کر دائیں بائیں دیکھنے کی کوشش کی تھی وہ لڑکی کہیں نہیں تھی۔ وہ جیسے کسی وہم کی طرح اُس کی نظروں کے سامنے آئی تھی اور کسی خیال کی طرح پلک جھپکتے میں غائب ہوگئی تھی۔ وہ لپک کر گاڑی سے اُترا تھا اور اُس نے جیسے اُسے ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی… یہاں وہاں ہر طرف پر وہ یوں غائب ہوئی تھی جیسے کبھی یہاں تھی ہی نہیں۔
”چھوٹے چوہدری صاحب آپ کو کوئی لینے نہیں آیا؟” وہ گامو تھا جو موتیا کو ڈھونڈنے آیا تھا اور موتیا کی بجائے مراد کو دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ مراد نے چونک کر گامو کو دیکھا تھا۔ گامو کو لگا وہ اُسے نہیں پہچانا۔
”میں گامو ماشکی … حویلی میں پانی…” مراد نے اُس کی بات کاٹ کر مسکراتے ہوئے اُس سے ہاتھ ملایا۔
”میں جانتا ہوں آپ کو چاچا گامو… ٹرین جلدی آگئی اور ابھی شاید حویلی سے کوئی آیا ہی نہیں۔” گامو نے لپک کر برستی بارش میں اُس کا سامان اُٹھایا تھا جو مراد نے پلیٹ فارم پر رکھا ہوا تھا۔
”تو پریشانی کس بات کی چھوٹے چوہدری صاحب ابھی پہنچا دیتا ہے فیقا آپ کو حویلی۔” مراد نے اُس سے سامان لینے کی کوشش کی تھی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا۔
”نہیں مجھے اٹھانے دیں۔” وہ مراد کے روکنے کے باوجود رُکا نہیں اور اسٹیشن کے باہر کھڑے کچھ ٹانگوں میں سے ایک تانگے کی طرف چلا گیا۔ فیقا بھی چوہدری مراد کو دیکھ کر اُسی طرح نہال ہوا تھا جس طرح گامو۔
”اگلی سیٹ پر بیٹھیں چھوٹے چوہدری اور دیکھیں آج فیقا کیسے حویلی پہنچاتا ہے آپ کو۔” اُس نے مراد کو سامان اگلی سیٹ پر رکھتے ہوئے کہا تھا مراد بھی ٹانگے کے اگلے حصے میں سوار ہوگیا تھا اور تبھی گامو نے دور بارش میں بھیگتی آتی بتول اور موتیا کو بھی دیکھ لیا تھا۔ اُس کے چہرے پر اطمینان لہرایا تھا۔ اُن دونوں کے پاس پہنچنے پر اُس نے اُن دونوں سے کہا تھا۔
”کہاں غائب ہوگئی تھی تم دونوں بارات تو کب کی گاؤں چلی گئی یہ تو اللہ بھلا کرے فیقے کا میرے کہنے پر رُکا ہوا ہے۔”
”چاچا ریل گاڑی اندر سے دیکھنے کا شوق تھا ۔ بس اُسی میں دیر ہوگئی۔”
بتول نے کہا تھا اور وہ دونوں اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے مسافر پر غور کئے بغیر پچھلے حصے میں سوار ہوگئی تھیں۔ مراد فیقے سے باتوں میں لگا ہوا تھا اُس نے بھی عقب میں سوار ہونے والی لڑکیوں کو نہیں دیکھا تھا۔ دیکھ لیتا تو پتھر کا ہوجاتا۔ وہ لڑکی اُس سے بس چند انچ دور اُس کے عقب میں بیٹھی تھی ٹانگے کی پچھلی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے۔ گامو بھی اب تانگے کے اگلے حصے میں سوار ہوگیا تھا۔ وہ اور فیقا اب مراد کو گاؤں کے بارے میں بتارہے تھے اورتانگہ آگے بڑھ گیا تھا۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھی موتیا گم صم بیٹھی ریلوے اسٹیشن کی دور ہوتی ہوئی عمارت کو دیکھ رہی تھی اور ساتھ اُس ریل گاڑی کو بھی جو بارش میں دھواں اُڑاتی چھکا چھک کرتی اب اس اسٹیشن سے کسی اگلی منزل کے لئے نکل گئی تھی۔



”تجھے کیا ہوا؟ تو کیوں گم صم ہے کب سے؟” بتول نے سرگوشی میں موتیا سے کہا تھا اُسے اندازہ تھا کہ اگلی سیٹ پر کوئی مرد بیٹھا تھا جسے وہ نہیں جانتی تھی اور پھر یک دم اُس نے سرگوشی میں موتیا سے کہا۔
”ہائے اللہ یہ تو چھوٹا چوہدری ہے جو اگلی سیٹ پر بیٹھا ہے۔ پلٹ کر دیکھ موتیا کتنا سوہنا ہے۔” بتول نے اُس کا ہاتھ دبا کر اُس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا تھا۔ موتیا نے گردن تک نہیں موڑی اور اُسی مدھم سرگوشی میں اُس سے کہا۔
”سوہنا تو وہ ہے جسے میں خوابوں میں دیکھتی ہوں۔” بتول جھلائی تھی وہ اُس کے خوابوں سے بھی واقف تھی اور اُس میں نظر آنے والے لڑکے کے بارے میں بھی جانتی تھی۔
”وہ خواب ہے یہ تو ساتھ بیٹھا ہے دیکھ تو سہی۔” اُس نے موتیا کا ہاتھ دبایا تھا۔ موتیا نے ہاتھ چھڑاتے ہوئے اُس سے کہا۔
”وہ بھی خواب نہیں ہے۔”
بتول نے اُس کی بات پر غور نہیں کیا تھا۔ اُس کا دھیان اب صرف چوہدری مراد پر تھا جو گامو اور فیقے سے گاؤں کے کھیتوں ، کھلیانوں، باغوں، مویشی اور پتہ نہیں کس کس چیز کی بات کررہا تھا اور بات کرنے سے بھی زیادہ وہ گامو اور فیقے کی باتیں سن رہا تھا۔
برستی بارش میں تانگہ بالا آخر حویلی کے سامنے جاکر رُکا تھا۔ مراد نے ٹانگے سے اُترنے سے پہلے اپنی جیب سے بٹوہ نکال کر فیقے کو چند نوٹ دینے چاہے اور فیقے کو جیسے کرنٹ لگ گیا تھا۔
”چھوٹے چوہدری سے کرایہ کیسے لے سکتا ہوں جی میں؟”
”تمہارے لئے نہیں گھوڑے کے لئے دے رہا ہوں تم تو واقعی نہیں لے سکتے۔” مراد خوش دلی سے کہتے ہوئے نوٹ اُس کی مٹھی میں دبا کر اُتر گیا تھا ۔ گامو پہلے ہی اُس کا سوٹ کیس پکڑے کھڑا تھا۔
”نہیں چاچا اب نہیں اب میں خود لے جاؤں گا اندر۔” اُس نے گامو کے نہ چاہنے کے باوجود اُس کے ہاتھ سے وہ سوٹ کیس پکڑلیا تھا۔ گامو تانگے پر دوبارہ بیٹھ گیا تھا اور فیقے نے تانگہ آگے بڑھا دیا تھا اور تب اندر حویلی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے مراد نے پہلی بار دور جاتے ٹانگے کے پچھلے حصے کو دیکھا تھا اور وہ قدم اُٹھا نہیں سکا۔ جس لڑکی کے بارے میں وہ پورا راستہ سوچتا آیا تھا وہ اُس کے عقب میں اُس ہی تانگے پر بیٹھی ہوئی تھی جس پر وہ گاؤں آیا تھا۔ وہ گردن موڑے پلکیں جھپکائے بغیر موتیا کو دیکھتا جارہا تھا اور یہی حال موتیا کا تھا۔ وہ بتول تھی جو پلیٹ فارم پر اُس کی کلائی پکڑ کر اُس کو دوسرے ڈبّے کی طرف لے گئی تھی اور پھر موتیا اُس چہرے کو ڈھونڈتی رہ گئی تھی جسے وہ کئی سالوں سے اپنے خوابوں میں دیکھتی آرہی تھی اور اب ایک بار پھر اُس چہرے کو ٹانگے کی رفتار اُس سے دور کررہی تھی۔ پر اس بار وہ اُس چہرے کا نام جان چکی تھی۔
”یہ مراد ہے؟”
دور کھڑے بارش میں بھیگتے مراد پر نظریں جمائے عجیب سی کیفیت میں موتیا نے بتول سے پوچھا تھا۔ بتول نے ایک نظر اُسے دیکھا اور پھر مراد کو جو اُن کی طرف دیکھ رہا تھا اور پھر اُس نے کہا تھا۔
”چوہدری مراد۔” وہ اب موتیاکا چہرہ دیکھ رہی تھی پھر دور بارش میں بھیگتے مراد کو۔ پھر موتیا کو جس کے ہونٹوں پر ایک عجیب والہانہ مسکراہٹ تھی۔
”یہ وہی ہے بتول… جومیرے خوابوں میں آتا ہے۔”
بتول کو جیسے کرنٹ لگا تھا۔ اس نے گردن موڑ کر ایک بار پھر مراد کو دیکھنے کی کوشش کی تھی وہ دیکھ نہیں پائی حویلی بہت دور رہ گئی تھی اور بارش بہت تیز تھی پر اُس نے یہ دیکھ لیا تھا کہ اس بارش میں بھی مراد وہیں کا وہیں کھڑا تھا۔ بتول نے موتیا کا چہرہ دیکھا۔ وہ اب بھی دور مراد کو دیکھ رہی تھی۔ فاصلہ اور بارش جیسے دونوں غائب ہوگئے تھے۔ وہ اُسے اب بھی دیکھ رہی تھی اپنی ہتھیلی کی طرح۔
”چوہدری مراد؟” بتول نے بے یقینی سے دہرایا تھا یوں جیسے یہ یقین چاہتی ہو کہ اُسے غلط فہمی نہیں ہوئی تھی۔
”مراد۔” موتیا نے جواباً دہرایا تھا۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!