Blog

Dana-Pani-Ep-2

آئینے کے سامنے کھڑی وہ اپنی آنکھوں میں سلائی بھر بھر کے سرمہ ڈال رہی تھی جب اللہ وسائی اندر آئی تھی اور اُس نے سجی سنوری بیٹی کو ایک نظر دیکھتے ہی اُس سے اپنی نظر ہٹائی تھی۔ آگے بڑھ کے اُس نے موتیا کی آنکھ سے ہی اپنی چھوٹی انگلی کی پور سے سرمہ لگا کر موتیا کے گال پر نظر کا ٹیکہ لگادیا تھا۔
”کیا کررہی ہیں اماں اتنی مشکل سے تیار ہوئی آپ نے پھر یہ ٹیکہ لگادیا۔ ” موتیاں جھنجھلائی تھی اور اُس نے گال رگڑنے کے لئے ہتھیلی بلند کی تھی پر اللہ وسائی نے کلائی پکڑلی۔



” یہ نظر کا ٹیکہ ہے خبردار اسے ہٹایا تو نے! منع بھی کرتی ہوں نہ نکلا کر باہر… اس کالے ٹیکے کے ساتھ بھی نظر نہیں ہٹتی تجھ سے موتیا۔” اللہ وسائی فکر مند ہوئی تھی اور موتیا ماں کی پریشانی دیکھ کر ہنسی تھی۔
”اب کوئی ایسی بھی حور پری نہیں ہوں اماں۔” اُس نے لب اسٹک ہونٹوں پر پھیرتے ہوئے کہا تھا۔
”نہ یہ ہونٹ لال کرنے کی کیا ضرورت ہے تجھے موتیا چل صاف کر انہیں۔ ” اللہ وسائی کا دل جیسے ہولا یا تھا۔ اُس نے آج پہلی بار موتیا کو اس طرح بارسنگھار کے ساتھ دیکھا تھ اور پہلی دفعہ ہی اُسے اُس کے جوان ہونے کا بھی احساس ہوا تھا۔
”اچھا اماں ہٹادیتی ہوں۔”موتیا نے ماں سے بحث کرنے کی بجائے اپنی ہتھیلی ہونٹوں پر رگڑ کر جیسے ہونٹ پونچھے تھے اور پھر لپ اسٹک کی لالی کو ہتھیلیوں پر ہی رگڑ تھا۔
اللہ وسائی کو پھر بھی تسلی نہیںہوئی تھی۔ لپ اسٹک کی پونچھنے کے بعد رہ جانے والی لالی موتیا کے ہونٹوں کو اور حسین کررہی تھی۔
”یہ ٹیشن (اسٹیشن) پر جاکر بارات دیکھنی ضروری ہے؟ ادھر گاؤں میں ہی آنی ہے تیری سہیلی کی بارات تو پھر ٹیشن جانے کی کیا ضرورت ہے۔” اللہ وسائی کو اُس کے اسٹیشن جانے پر اعتراض ہوا تھا۔
”اماں میری سہیلی کی بارات ہے پورا گاؤں جارہا ہے اسٹیشن میں کوئی اکیلی تھوڑی جارہی ہوں۔” اس سے پہلے کہ موتیا کچھ اور کہتی گامو اندر آگیا تھا۔
”چل جلدی جلدی کر موتیا۔تانگے چل پڑنے ہیں پھر اتنی مشکل سے فیقے کو روک کے آیا ہوں۔” گامو عجلت میں تھا۔
”آ پ بھی چلیں اماں۔” موتیا نے اللہ وسائی کا ہاتھ پکڑا۔ اُس نے ہاتھ چھڑالیا۔
”نہ بس ٹھیک ہے تم دونوں باپ بیٹی ہی جاؤ مجھے تیرے کام ہیں پنڈ میں۔” اللہ وسائی نے کہا اور پھر ساتھ ہی وہ گامو کو ہدایات دینے لگی۔
”دیکھ گامو جلدی لے کر آجانا اسے واپس… شام ہونے سے پہلے۔”
”ہاں ہاں اللہ وسائی… تو شام کی بات کررہی ہے میں تو گھنٹے دو گھنٹے میں آجاؤں گا واپس۔” گامو نے جیسے اُسے تسلی دیتے ہوئے موتیا کو دیکھا اور نظر ہٹالی۔



اُس کی دھی کے چہرے پر ایسا ہی روپ تھا کہ گامو کی نظریں ٹھہر نہیں پائی تھیں اُسے پتہ تھا اللہ وسائی کیوں اتنی بے چین ہورہی تھی۔ اُن دونوں نے اتنے سالوں میں موتیا کو سیپ کے موتی کی طرح پالا تھا جیسے کوئی مرغی اپنے انڈے اور پھر اُن انڈوں سے نکلنے والے بچوں کو لے کر بیٹھتی تھی ویسے ہی گامو اور اللہ وسائی موتیا کی چوکیداری کرتے تھے۔ اُن کی بیٹی کے حسن کا چرچا گاؤں میں تھا اور قابلیت کے جھنڈے سات گاؤں میں گڑے ہوئے تھے۔ وہ جہاں سے گزرتی تھی لوگوں کی نظریں روک لیتی تھی۔ وہ جس سے ملتی تھی اُسے یاد رہ جاتی تھی۔ بچے بڑے بوڑھے موتیا پر گاؤں کا گاؤں شیدا تھا۔ گاؤں کا بوڑھا موچی جو ایک سال کی عمر سے اُس کے جوتے بنانے لگا تھا اور اب اُس کے جوتے مرمت کرتا تو سب سے پہلے مرمت کرکے بھیجتا۔ وہ گاؤں کی ڈاکٹر بیٹی تھی جس کے ہاتھ سے لوگوں کو شفا ملنے والی تھی ویسی ہی شفا جو گامو ماشکی کی مشک کے میٹھے پانی سے ہوتی تھی۔ گاؤں کا حلوائی اب بھی اُس کے مانگے بغیر بچپن کی طرح کاغذ کے ٹکڑے پر ایک جلیبی رکھ کے اُسے پکڑا دیتا تھا۔ اور بوڑھا ڈاکیہ اپنی سائیکل کچے راستے پر چلاتا دوڑاتا سب سے پہلے موتیا کے گھر کے دروازے پر ہی آکر کھڑا ہوتا تھا کیونکہ جتنے کاغذ اور لفافے اُس نے اتنے سالوں میں موتیا کے گھر لاکر دیئے تھے وہ پورے پنڈ میں کہیں نہیں دیئے تھے۔ موتیا کسی کو چاچا کہتی کسی کو ماما کسی کو بابا جی کسی کو تایا جی پر وہ ہر ایک سے رابطے میں تھی ہر کسی سے ملتی تھی اور جب بھی وہ گاؤں آتی دوائیوں کا ڈھیر ساتھ لاتی جو وہ پورے گاؤں میں مفت بانٹتی پھرتی۔ وہ گاؤں کی ڈسپنسری میں بنا اجازت ہی بیٹھنے لگ گئی تھی۔
چند دن، چند ہفتے وہ جب بھی آتی روز ڈسپنسری میں بیٹھی گاؤں کے لوگوں کا علاج معالجہ اُنہیں یہ بتا بتا کر کرتی کہ وہ ابھی ڈاکٹر نہیں ہے۔ اندازے سے ہی دوا دے رہی ہے۔ پر عجیب بات تھی نہ کبھی موتیا کا اندازہ غلط ہوا تھا نہ ہی اُس کی تشخیص۔ گاؤں کے لوگوں کو اُس کے ہاتھ سے ابھی سے آرام آنے لگا تھا، افاقہ ہونے لگا تھا اور گامو اور اللہ وسائی اپنی بیٹی کی یہ تعریفیں سن کر خوشی سے پھولے نہ سماتے۔ انہوں نے ساری عمر دوسروں کے سامنے جھکتے گزاری تھی اب وہ لوگوں کو موتیا کے سامنے جھکتے دیکھ رہے تھے اور وہ نہ پیر لگتی تھی نہ فقیر اور نہ ہی اُس کے ہاتھ میں جادو تھا۔ بس اُس کے ہاتھ میں شفا تھی اور برکت… اور یہ دونوں چیزیں کہاں سے آئی تھیں اس کے لئے گاؤں والوں کو حساب کا کوئی کلیہ رٹنا نہیں پڑتا تھا۔




٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!