Blog

Dana-Pani-Ep-2

تاجور کے وہم و گمان میں بھی کبھی یہ نہیں تھا کہ اسے زندگی میں کبھی گامو ماشکی اور اُس کی بیٹی سے بھی مدد مانگنی پڑ سکتی تھی۔ مگر اس رات پڑ گئی تھی۔ مراد کو چڑھنے والا بخار بڑھتا ہی گیا تھا اور آدھی رات تک وہ اس طرح بے سوداور بے حال ہوگیا تھا کہ تاجور نے رونا شروع کردیا تھا۔ گاؤں کی ڈسپنسری میں کمپاؤنڈر بیٹھتا تھا اور وہ دو دفعہ مراد کو دیکھ کر جاچکا تھا مگر اُس کی کسی دوائی کسی ٹوٹکے سے مراد کو افاقہ نہیں ہوا تھا اور بالا آخر یہ اسی کا مشورہ تھا کہ موتیا کو بلاکے مریض دکھایا جائے۔



”اس کے ہاتھ میں بڑی شفا ہے چوہدری جی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ ابھی ڈاکٹر نہیں بنی پھر بھی بڑا تجربہ ہے اُسے مریضوں کا۔”
بوڑھے کمپاؤنڈر کو اس وقت اس مسئلے کا حل موتیاہی نظر آئی تھی اور چوہدری شجاع نے تاجور کو بتا کر موتیا کو بلابھیجا تھا ۔ تاجور بلاچوں چرا اُن کی بات مانی تھی اُسے اس وقت بس اپنے بیٹے کی زندگی اور صحت چاہیے تھی اُس کا وسیلہ کوئی بھی بنتا اُسے پرواہ نہیں تھی۔
وہ پہلا موقع تھا جب تاجور نے جوان موتیا کو دیکھا تھا اُس موتیا کو جس کے حسن کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ کالی چادر اوڑھ کے آئی تھی اور اُس کالی چادر میں بدلی میں چھپا چاند لگ رہی تھی۔ تاجور کو اُسے دیکھ کر عجیب وہم پڑے۔ مراد کے سامنے جائے گی وہ اُسے دیکھے گا تو کہیں دیکھتا نہ رہ جائے۔ مرد ذات ہے اور وہ خوبصورت ہے۔ تاجور اس کے سلام کے جواب میں سوچنے بیٹھ گئی تھی اور موتیا کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ مریض کیوں نہیں دکھا رہے۔
بالاآخر تاجو رنے جیسے ہار مانتے ہوئے اُسے مراد کے کمرے میں چلنے کا کہا تھا۔ اُس نے اپنے دل کو تسلی دے لی تھی کہ وہ بخار میں سُدھ بدھ کھویا بیٹھا ہے۔ اس حالت میں اُسے کہاں ہوش تھی۔ موتیا کے حسن کا۔موتیا چوہدری شجاع اور تاجور کے ساتھ مراد کے کمرے میں گئی تھی۔ وہ لمبا تڑنگا مرد جسے آج دوپہر کو اس نے اپنے خوابوں سے نکل کر حقیقت میں دیکھا تھا۔ اتنی جلدی دوبارہ اسے اس حال میں ملے گا موتیا نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ اور نہ صرف ملے گا بلکہ وہ اُسے چھو بھی سکے گی اور وہ بھی اُس کے اتنے قریب بیٹھ کر۔ موتیا کے لئے وہ معجزہ تھا جو اُس کی دُعا کے بدلے ہوا تھا۔ مراد آنکھیں بند کئے ہوئے پڑا تھا۔ نہ کمرے میں ہونے والی آوازوں پر اُس نے آنکھیں کھولی تھیں نہ ہی اپنا ماتھا چھونے پر، نہ اپنی کلائی پکڑنے پر۔ موتیا نے زندگی میں پتہ نہیں کتنے مریضوں کو چھو ا تھا۔ پر وہ اب جس کی کلائی تھام رہی تھی وہ اُس کے لئے مریض نہیں تھا۔ اُس کے ہاتھ کا نپنا شروع ہوگئے تھے۔ مراد کی گرم کلائی کو اُس کے ماں باپ کے سامنے تھام کر بیٹھے رہنا آسان نہیں تھا۔ اپنی گھڑی کو دیکھ کر اُس کی نبض لیتے ہوئے اور پھر اُس کا ٹمپریچر لیتے ہوئے موتیا نے مراد کے چہرے کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ وہ بار بار اپنے ذہن یہ سمجھا رہی تھی کہ وہ بس ایک مریض تھا اور وہ اُس کا علاج کرنے آئی تھی۔ اُسے اس کے علاوہ کچھ نہیں سوچنا تھا مگر یہی سب سے مشکل بن گیا تھا۔
”پتر ٹھیک ہے نا میرا بیٹا؟ بخار کہیں دماغ کو تو نہیں چڑھ گیا۔”
چوہدری شجاع نے عجیب بے قراری سے اُسے مخاطب کیا تھا ۔ وہ اُس وقت اپنا فرسٹ ایڈ کا باکس اُٹھائے مراد کے لئے ایک انجکشن تیار کررہی تھی۔
”جی بالکل ٹھیک ہیں یہ اور بخار سر وغیرہ کو نہیں چڑھا لیکن تیز بخار ہے۔ ابھی میں انجکشن لگاؤں گی چند گھنٹوں میں ٹھیک ہوجائیں گے۔”



موتیا نے اُسے تسلی دی تھی اور پھر مراد کے بازو میں سوئی گھسادی تھی اور اُس لمحے پہلی بار مراد کے جسم میں جنبش ہوئی تھی اُس نے آنکھیں کھول کر ان سب کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی تھی کہ اُس کے ساتھ کیا ہورہا تھا لیکن بخار واقعی اتنا تیز تھا کہ وہ چاہنے کے باوجود آنکھیں کھلی نہیں رکھ سکاا ور اُس نے دوبارہ آنکھیں بند کرلی۔ اُس کے کانوں میں کسی کی آواز گونجی تھی کسی کی میٹھی مہربان آواز۔ مراد کی سماعتوں نے جیسے اس آواز کو شناخت کرنے کی کوشش کی تھی آواز شناخت نہیں ہوئی تھی پر لاشعور کا حصہ بن گئی تھی۔
فرسٹ ایڈکا باکس بند کرکے موتیا اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور اُٹھ کے کھڑے ہوتے ہی یہ تاجور کی سرد مہر نظریں تھیں جن کا سامنا اُسے ہوا تھا۔ وہ تاجور کی آنکھوں کی خفگی کو سمجھ نہیں پائی یقینا وہ اُس کے لئے نہیں ہوسکتی تھی۔ وہ تو اُن کے بیٹے کا علاج کرنے آئی تھی اُس کے ساتھ اُن کی کیا خفگی ہوسکتی تھی۔ اُس نے اپنے اس احساس کو وہم سمجھ کر جھٹکا تھا۔
”تمہارا بہت شکریہ بیٹا تم رات کے اس پہر ہماری مدد کے لئے آئی۔ ” شجاع نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کے جیسے اپنی ممنونیت کا اظہار کیا تھا۔
”میں تو ڈاکٹر بن رہی ہوں ۔ڈاکٹر کے لئے رات دن کچھ نہیں ہوتا بس مریض ٹھیک ہونا چاہیے اور یہ بھی ٹھیک ہوجائیں گے۔” اُس نے جیسے اُنہیں یقین دلایا تھا۔
تاجور نے اس سے کوئی بات نہیں کی تھی موتیا باہر آگئی جہاں برآمدے میں گامو ماشکی بیٹھا ہوا تھا۔ چوہدری شجاع نے ایک بار پھر گامو سے ہاتھ ملاتے ہوئے شکریہ ادا کیا اور جیسے گامو نہال ہوگیا۔ ایسا موقع زندگی میں کہاں روز روز ملتا ہے کہ وہ بھی کسی کے احسانوں کے بدلے میں احسان کرسکے اور یہ سب موتیا کے طفیل ہوا تھا۔
دونوں باپ بیٹی چوہدریوں کے تانگے میں رات گئے اسی خاموشی کے ساتھ واپس آگئے تھے جس خاموشی سے گئے تھے۔ اور موتیا کے جانے کے بعد بعد مراد کا بخار اُترنا شروع ہوگیا تھا۔ تاجور کے دل کو عجیب قرار آیا تھا۔
”اُس بچی کے ہاتھ میں واقعی ہی شفا ہے ماشاء اللہ۔”
چوہدری شجاع نے تاجور سے کہا تھاوہ جیسے اور احسان مند ہوا تھا۔ تاجور کی زبان سے ایک لفظ نہیں نکلا تھا۔ اُسے بس ایک ہی دھڑکا لگا ہوا تھا کہیں مراد نے بخار میں بھی اُس کو دیکھ نہ لیا ہو۔ کہتے ہیں ماؤں کے سارے اندیشے صحیح ہوتے ہیں۔ تاجور کو پتہ ہی نہیں تھا مراد اُسے پہلے ہی دیکھ کر فدا ہوچکا تھا جس کی ایک جھلک سے بھی بچانے کے لئے تاجور بے حال ہورہی تھی۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!