Blog

Dana-Pani-Ep-2

پیر ابراہیم نے مراد کا ماتھا چومتے ہوئے اُسے گلے لگا کر پتہ نہیں کیا کیا پھونکا تھا۔
”مجھ سے بھی لمبے ہوگئے ہو اب تو تم ۔” اُس نے مراد کے گال تھپکتے ہوئے کہا تھا۔ مراد ساتھ کھڑی ماں کو دیکھتے ہوئے ہنسا۔
”ہاں مگر امی کو میرا قد کاٹھ نظر نہیں آتا اُنہیں آج بھی چھوٹا لگتا ہوں میں۔ نانا جان امی کو سمجھائیں۔”
”اچھا اب شکایتوں کے لئے تھوڑی لے کر آئی ہوں۔” تاجور نے فوراً سے بیشتر کہا۔
تاجو رکی بات پر پیر ابراہیم اور مراد دونوں ہنس دیئے تھے ۔



”میں ذرا ڈیرے کا چکر لگا کے آتا ہوں نانا جان پچھلی بار بھی آیا تھا تو آپ کے ڈیرے پر نہیں گیا۔”
”ملازم کو ساتھ لے کر جانا۔ ” پیر ابراہیم نے جواباً کہا۔
”نہیں ملازم کی ضرورت نہیں ۔ ہر راستے اور جگہ کا پتہ ہے مجھے۔” وہ کہتے ہوئے چلا گیا تھا۔ تاجور نے قربان جانے والی نظروں سے بیٹے کو جاتا دیکھا اور پھر پیر ابراہیم سے کہا۔
”باباجان میں نے اس بار ماہ نور سے مراد کا رشتہ طے کردینا ہے۔”پیر ابراہیم نے اُس سے کہا۔
”تم نے مراد سے اُس کی مرضی پوچھی؟” تاجور عجیب تنفر سے ہنسی۔
”میں ماں ہوں اُس کی اباجان مجھے انکار کیسے کرے گا وہ؟”
”یہ دل کی بات ہوتی ہے اور دل ماں کی مرضی پر نہیں چلتا۔ تم پہلے اُس سے پوچھو پھر میں یحییٰ سے بات کروں گا۔”
پیر ابراہیم نے دو ٹوک انداز میں اُسے بتایا تھا۔ تاجور کو باپ کا انداز بُرا لگا تھا لیکن وہ ادب کے مارے خاموش رہی ماہ نور اُس کے بڑے بھائی کی بیٹی تھی اور تاجو رپچھلے ایک سال سے مراد کے ساتھ اُس کا رشتہ رکنے کے لئے بار بار پر تولتی رہتی تھی اور ہر بار پیر ابراہیم اُس سے یہی کہتے کہ وہ مراد سے پوچھے۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!