Blog

Dana-Pani-Ep-2

”ٹھہر مراد اندر بعد میں جانا پہلے تیری نظر اُتار دوں… شکوراں جا مرچیں لے کے آ! مراد سے واروں۔” بارش میں بھیگے ہوئے مراد کو گلے لگا کر چمٹائے رکھنے کے بعد الگ کرتے ہی تاجور نے سب سے پہلے شکوراں کو آواز دی تھی۔ مراد ماں کی بات پر ہنسا تھا۔



”بارش میں بھیگتا آیا ہوں مجھے کس کی نظر لگے گی؟”
”لے تجھے کیا پتہ بارش تھوڑی ڈھال بنتی ہے کسی کی بُری نظر کے سامنے… اور اس گاؤں میں تیر ے جیسا سوہنا گھبرو جوان ہے کون کہ لوگ مڑمڑ کے نہ دیکھیں۔” تاجور نے مراد کے چھ فٹ سے نکلتے ہوئے قد و قامت کو دیکھتے ہوئے جیسے منہ ہی منہ میں اُس پر پتہ نہیں کیا کیا پھونکا تھا۔ وہ ہر سال گاؤں آتا اور ہر سال ہی پہلے سے زیادہ اونچا لمبا لگتا پر اس سال تو پہلی بار وہ مرد لگنے لگا تھا۔ اُس کا دبلا پتلا جسم یک دم ہی بھرگیا تھا اور کسرتی نظر آنے لگا تھا۔ اُس ویٹ لفٹنگ کا نتیجہ تھا جو اُس نے کچھ عرصہ پہلے شروع کی تھی۔
شکوراں لپک کر مرچیں لائی تھی جو تاجور نے پتہ نہیں کیا پڑھ پڑھ کر مراد کے سر سے واری تھیں۔
”جا… جا کے کوئلوں پر ڈال کر جلا… ساری بُری نظریں۔ ساری بلائیں جل کر بھسم ہوجائیں۔” تاجور نے مرچیں شکوراں کو دیتے ہوئے کہا۔ مراد ہنسا۔
”ایسا تو کوئی ہے ہی نہیں جس نے آپ کے بیٹے کو دیکھا ہو۔”
یہ جملہ کہتے ہوئے مراد کے ذہن پر ایک جھماکے کے ساتھ موتیا لہرائی تھی۔ اُس کی وہ ہرنی جیسی آنکھیں جو اُس پر ٹکی تھیں اور اُسے گھائل کرگئی تھیں۔ پر وہ بُری نظر کہاں تھی اُس کے لئے وہ تو وہ نظر تھی جس کے لئے وہ جاگیریں دے سکتا تھا۔
”نہ پتر اب یہ نہ کہنا مجھے کہ تو سامنے آئے اور کسی کا نظر نہ پڑے۔”
تاجو رنے اُس کی بات کو بڑے یقین سے جھٹلایا تھا۔
”تیرے ابا جی کو کب سے کہہ رہی تھی وقت سے پہلے نکل جائیں تجھے لینے اور اب دیکھ تو یہاں کھڑا ہے اور وہ اسٹیشن پر تجھے ڈھونڈتے پھر رہے ہوں گے۔”
تاجور اُس کا بازو پکڑے اُسے اندر لے جاتے ہوئے بولی تھی۔
”بس ہر سال میری گاڑی ایک گھنٹہ لیٹ آتی تھی اس بار آدھ گھنٹہ پہلے آگئی تو ابا جی سے اندازے کی غلطی ہوگئی۔”
مراد نے ہنستے ہوئے ماں سے کہا تھا۔
”پر دیکھ نا تو بھیگ گیا ہے پتہ نہیں کتنی مشکل سے پہنچا ہے جا کپڑے بدل پھر میں تیرے لئے کھانا لگواؤں تیرے ابا بھی پہنچ جائیں گے تب تک۔”



تاجور نے مراد سے کہا تھا اور وہ اپنے کمرے کی طرف چلا آیا تھا۔ کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آنے کے بعد اُس نے دروازہ بند کیا تھا اور وہ ایک بار پھر حویلی کے باہر اُس برستی بارش میں پہنچ گیا تھا جہاں اُس نے تانگے کے پیچھے موتیا کو دوسری بار دیکھا تھا۔ اور اُس نے یہ نہیں سوچا تھا کہ کاش وہ کچھ اور مانگ لیتا۔ وہ موتیا ہی مانگتا۔ خوشی اور سرشاری کی وہ کیفیت تعجب اور معجزے سے گندھی ہوئی تھی۔ وہ جسے ریلوے اسٹیشن پر کھو بیٹھا تھا اُسے اپنے گھر کے باہر ڈھونڈھ نکالا تھا اور وہ اُسی کے گاؤں کی لڑکی تھی اور اطمینان یہ تھا کہ وہ اُس کو کھوج لے گا وہ جہاں بھی رہتی تھی جو بھی تھی۔
اُس کے نین غزالی دلبر
اُس کے گال گلابی
اُس کے روپ پہ ساون برسے
بہہ جائے مر مر کے
اُس کا حسن کہانی جیسا
کاغذ کتنے بھردے
اُس کی مُشک بہاروں جیسی
اُس کی چپ میں چھاؤں
وہ حسن پری
وہ روپ متی
وہ میرے جل کی ناؤ
مراد زیر لب وہ سارے بول دہرا رہا تھا جو اُس نے ریل گاڑی میں گڑوی بجا کر اپنی کسی ان دیکھی محبوبہ کے لئے قصیدے گائے ہوئے کسی گانے والے سے سنے تھے جو لمبی تان لگاتا گڑوی بجاتا ریل گاڑی کے اندر بیٹھے مسافروں کے پاس سے گزرتا گارہا تھا اور مراد حسن کے اُن سارے قلابوں کو سنتے ہوئے محظوظ ہورہا تھا جو وہ گانے والا ملا رہا تھا۔ اُس نے چند روپے اُس کی گڑوی میں ڈالے تھے جب اُس نے گڑی اُس کی طرف بڑھائی تھی اور باقی لوگوں میں سے کسی نے ایک سکہ کسی نے دو سکے اور شاید یہ مراد کے دیئے گئے نوٹوں کا اثر تھا کہ وہ اُس کے پاس کھڑا گڑوی بجاتا دوبارہ اپنی محبوبہ کا قصیدہ پڑھتا رہا اور مراد مسکراتا ہوا سنتا ہوا یہ سوچتا رہا تھا کہ دُنیا میں ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی عورت کا حسن کسی مرد کو اس طرح گانے پر مجبور کردے اور پتہ نہیں وہ کون سا لمحہ تھا جس میں یہ طے ہوا تھا کہ اُس کے سوال کا جواب اُسے اگلے ایک گھنٹہ میں ہی مل جانا تھا۔
اور اب وہ اپنے کمرے میں کھڑا اُس ایک ایک بول کو دہراتا موتیا کو اپنے تصوّرکے آئینے پر لفظوں سے کھینچ رہاتھا۔
وہ حسن پری
وہ روپ متی
وہ میرے جل کی ناؤ
وہ کمرے کے فرش پر ننگے پاؤں کھڑا تھا اور اُس کے پیروں کے گرد وہ پانی تھا جو اُس کے کپڑوں سے نچڑ کر فرش پر پھیل رہا تھا اور مراد ہلنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ وہ بس ہمیشہ کے لئے ایسے ہی کھڑا رہ جانا چاہتا تھا اُس کے لئے گیت گاتے ہوئے جس کو ایک بار پھر دیکھنے کی تمنّا اُسے چکور بنارہی تھی۔
باورچی خانے کے مٹی کے چولہے میں دہکتے کوئلوں پر شکوراں مرچیں ڈال رہی تھی اور مرچوں سے اُٹھتا دھواں دیکھتے ہوئے تاجور کو عجیب سکون ہوا تھا۔
” ہر بری نظر مراد سے سو کوس دور ہر بلا اُس کے بیٹے سے پرے… ”وہ زیر لب کہہ رہی تھی۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!