Blog

Dana-Pani-Ep-2

”پیر صاحب کے باغ کا امرود ہے بھلا اجازت کیسے توڑ لیا تم نے موتیا؟”
گاموموتیا پر خفا ہوا تھا۔ وہ صبح سے چلتے ہوئے کہیں اب جاکر پیر صاحب کے ڈیرے پر پہنچے تھے اور باغ کی حدود شروع ہوتے ہی موتیا تھک ہار کر بیٹھ گئی تھی، گامو اور اللہ وسائی بھی سانس لینے کے لئے اُس کے پاس بیٹھ گئے تھے اور تبھی موتیا کو درخت پر لٹکے وہ امرود نظر آئے تھے جنہیں اُس نے کھڑا ہوکر توڑ لیاتھا اور امرود کے توڑتے ہی اللہ وسائی اور گامو دونوں بے حد خوفزدہ ہوگئے تھے۔



”اللہ کا رزق ہے کوئی بھی کھا سکتا ہے ۔ میں پیر صاحب کو بتادوں گی۔” اُس نے امرود دوپٹے سے رگڑ کر صاف کرنا شروع کیا تھا۔
”بغیراجازت کوئی اُن کے ڈیرے سے کچھ نہیں لیتا۔” اللہ وسائی اور ناراض ہوئی۔
”اب تو لے لیا نا اماں بھوک لگی ہے۔”
اُس نے کہتے ہوئے امرود کو دانتوں سے کاٹنا شروع کیا تھا اور بالکل اُس وقت اُس نے مراد کو دیکھا تھا جس کی نظر اُس ہی پر تھی امرود موتیا کے ہاتھ سے گر پڑا تھا۔ مراد اب اُن کی طرف آرہا تھا۔ اور موتیا ٹکٹکی باندھے آتا دیکھ رہی تھی اور اُس کے ہاتھوں سے گرتے امرود کو دیکھ کر گامو اور اللہ وسائی نے بھی اُس طرف دیکھا تھا جہاں وہ دیکھ رہی تھی۔ مراد سفید شلوار قمیض میں ملبوس چمڑے کی کھلی چپل پہنے ہوئے تھا۔ زمین پر اُگی چار چار انچ گھاس میں اُس کے پاؤں دبتے پھر نکل آتے۔
موتیا کو بالکل اُس ہی لمحے وہ خواب یاد آیا تھا۔ وہ بھی ایسی ہی جگہ تھی جہاں اُس نے مراد کو دیکھا تھا۔ ایک عجیب سی وحشت اور سراسیمگی میں اُس نے زمین پر گھاس کو دیکھنا شروع کیا تھا اور پھر اُس نے گھاس میں لہراتی ہوئی وہ چیز دیکھ لی تھی ۔ وہ کوبرا سانپ جو مراد کے پاؤں کے قریب رینگ رہا تھا اور کسی بھی لمحے مراد کا پاؤں اُس پر ہوتا۔ خوف سے اُس کا حلق خشک ہوا تھا ۔ موتیا کو خواب والا سانپ یاد آیا تھا۔ اُس کی خوفناک آنکھیں اور وہ جیسے کسی ٹرانس میں اُس بل کھاتے ہوئے سانپ کو دیکھتی رہی جو مراد کے چپل سے نظر آنے والے انگوٹھے اور پاؤں کے قریب پہنچنے والا تھا۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!