Blog

Dana-Pani-Ep-2

”تجھے تو بخار ہورہا ہے مراد۔ ” کھانے کی میز پر تاجور نے مراد کا ماتھا چھوکر کہا تھا۔ وہ اُن دونوں کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھا تھا اور بار بار چھینک رہا تھا۔ تاجور کو اُس کا چہرہ اور آنکھیں سرخ لگیں اور اُس نے ماتھا چھوا اور یک دم فکر مند ہوگئی اُس کا ماتھا گرم تھا۔
”امی آپ خوامخواہ ہی پریشان ہورہی ہیں۔ کچھ نہیں ہوا۔ ابھی یہ آپ کے ہاتھ کا پکا ہوا شاندار کھانا کھا رہا ہوں تو ٹھیک ہوجاؤں گا۔”



مراد نے جیسے ہر بات مذاق میں اڑانے کی کوشش کی تھی۔ پرتاجور کو کہا قرار تھا۔
”مجھے پہلے ہی ڈر تھا بھیگا ہے توبخار تو ہوا ہی ہوا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا آج تک کہ مراد تو بارش میں بھیگا ہو اور تجھے بخار نہ ہوا ہو۔” تاجور کے کہنے پر اُس نے اطمینان سے کہا۔
”امی لندن میں ہر وقت بھیگتا ہی رہتا ہوں اور کچھ نہیں ہوتا مجھے ۔ یہ تو بس شاید سفر کرکے آیا ہوں اس لئے ہوگیا ورنہ ٹھیک ہوں میں۔” مراد نے ماں کی بات کو بالکل سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔
”میری ہی غلطی تھی وقت پر چلا جاتا تو تجھے تکلیف نہ ہوتی تو آرام سے آتا۔” چوہدری شجاع پچھتایا تھا۔
”میں تو بڑے مزے سے آیا ہوں ابو آپ خوامخواہ میں پچھتا رہے ہیں۔” مراد نے جیسے باپ کو تسلی دی تھی۔
”بس اب دل نہیں لگتا تمہارے بغیر مراد اتنے سال سے تمہاری جدائی برداشت کررہی ہوں ۔ پہلےAitchisonمیں اور اب لندن میں ۔” تاجور کا بھر آیا تھا۔
”تو یہ ضد کس کی تھی Aitchisonمیں پڑھانے کی ورنہ میں تو نظروں کے سامنے رکھنا چاہتا تھا ہمیشہ۔ ” چوہدری شجاع نے لقمہ دیا۔
”ہاں میری ہی ضد تھی اور دیکھیں نا کیسا قابل نکلا ہے ۔ یہاں گاؤں کے اسکول میں پڑھتا تو کیا بنتا۔ ”تاجور نے فوراً سے پہلے کہا۔
مراد دونوں کی نوک جھوک سنتے ہوئے مسکراتے ہوئے کھانا کھاتا رہا اور بالکل ٹھیک نظر آنے کی اداکاری کرتا رہا لیکن اُسے اندازہ ہونے لگا تھا کہ وہ ٹھیک نہیں تھا اُس کی طبیعت واقعی خراب ہورہی تھی۔
”میں نے تو سوچ لیا ہے مراد اس بار تمہاری شادی کرکے ہی تمہیں واپس لندن بھیجوں گی۔” تاجور نے یک دم کہا۔وہ چونکا اور مسکرایا اور پھر اُس نے کہا۔
”شادی کی بات کریں گی تو پھر تو واقعی طبیعت خراب ہوجائے گی میری ۔ اتنا سکون اور آرام ہے میری زندگی میں۔ آپ کیوں ختم کرنا چاہتے ہیں۔” تاجور اُس کی بات پر ناراض ہوئی۔
”خوامخواہ میں اکلوتے بیٹے ہو ہمارے میرا بس چلتا تو تمہاری شادی کرکے ہی آگے پڑھنے کے لئے لندن بھیجتی تمہیں لیکن بس تمہارے ابا نہیں مانے۔” تاجور نے خفا سے انداز میں چوہدری شجاع کو دیکھا۔
”اور ابا اسی لئے تو اچھے لگتے ہیں مجھے… اب بس اور نہیں کھاؤں گا میں… تھوڑی دیر لیٹوں گا۔” مراد کہتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا تھا اُس کے لئے اب واقعی کچھ کھانا مشکل ہوگیا تھا مگر وہ ماں باپ کو پریشان بھی نہیں کرناچاہتا تھا۔
تاجور اُس کے جانے کے بعد بھی دروازے کو دیکھتی رہی اور پھر وہ اُٹھ کر کھڑی ہوگئی۔
”تمہیں کیا ہوا تم تو کھاؤ۔” چوہدری شجاع نے اُسے روکا۔
”میں اسے دیکھ کر آتی ہوں۔ سردبادیتی ہوں ۔مجھے لگتا ہے طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس کی… آپ بکرے کا صدقہ دیں جلدی۔” وہ کہتے ہوئے مراد کے پیچھے لپکی تھی۔



٭…٭…٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!